نواز، شہباز ایک سکے کے دو رُخ؟

مزاحمت کے برعکس ان کے مفاہمت والے بیانیے نے پارٹی کو ضعف پہنچایا اور مسلم لیگ (ن) انتخابات نہیں جیت سکی—فوٹو فائل

شہباز شریف کی اچانک پاکستان آمد کا مقصد کیا تھا؟ کیا واقعی اقتدار کے ایوانوں میں کوئی کھچڑی پک رہی تھی یا ہم سرگوشیوں اور افواہوں پر کچھ زیادہ یقین کرنے لگے ہیں؟

اس طرح کے سوالات زبان زدِعام ہیں اور جناب سہیل وڑائچ کی شہباز شریف سے باالمشافہ ملاقات کا احاطہ کرنے والے ایک کالم نے ان لوگوں کا کام آسان کردیا جو بین السطور بات سمجھنے کے فن سے آشنا ہیں۔

اس کالم کے بعد شہباز شریف بذاتِ خود کئی ٹی وی چینلز پر جلوہ افروز ہوئے اور اپنا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا مگر سوالات کی ڈور سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھتی چلی گئی اور ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہو پایا؟ اس پہیلی میں چھپا بھید اس لئے سامنے نہیں آرہا کہ سوالات کی ترتیب درست نہیں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ نواز اور شہباز واقعی الگ کشتیوں کے سوار اور مختلف راستوں کے مسافر ہیں یا پھر یہ دونوں ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں اور دو مختلف بیانیے اس لئے لے کر چل رہے ہیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی جیتا تو یہ شریف خاندان کی کامیابی ہو گی؟ مجھے مسلم لیگ(ن) کی اس داخلی سیاست سے قطعاً کوئی غرض نہیں۔

مجھے شہباز شریف کی نیت پر شک کرنے یا یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا یا چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی۔

البتہ بطور صحافی ماضی اور حال کے چند حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے متعدد ایسے سوالات سامنے رکھنا جن سے حقیقت واضح ہو سکے اور سچ سامنے آسکے، مجھ پر لازم ہے۔

شہباز شریف کی یہ بات بالکل درست ہے کہ انہیں کئی مواقع پر اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے دغا کرکے اقتدار میں آنے کی پیشکش کی گئی اور ہر بار انہوں نے معذرت کی۔ 27برس قبل 18اپریل 1993کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی تحلیل کردی اور نواز شریف کو گھر بھیج دیا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے صدارتی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال تو کردی مگر ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کے اختلافات کے باعث معاملات آگے نہ بڑھ سکے۔

صدر غلام اسحاق خان نے شہباز شریف کو بلا کر یہ پیشکش کی کہ میاں نواز شریف پارٹی کے سربراہ بن جائیں اور آپ وزارتِ عظمیٰ سنبھال لیں تو معاملات بہتر انداز میں چلائے جا سکتے ہیں۔ شہباز شریف کے بقول انہوں نے انکار کر دیا۔

21سال قبل جب وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے تعلقات بگڑ رہے تھے تو جنرل پرویز مشرف نے سری لنکا جانے سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بلایا اور یہ تجویز دی کہ ’’بھائی صاحب‘‘ کے ساتھ چلنا ممکن نہیں رہا لیکن اگر آپ وزیراعظم بن جائیں اور ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کے تحت نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرکے پارٹی کی صدارت تک محدود کردیا جائے تو اچھے ورکنگ ریلیشن شپ کے ساتھ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن شہباز شریف جنرل پرویز مشرف کی پیشکش ٹھکرا دی۔

نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کیا گیا مگر وہ ’’باوجوہ‘‘ وزیراعظم نہ بن پائے۔ شہباز شریف کی سہیل وڑائچ کیساتھ بات چیت جسے انہوں نے نجی گفتگو قرار دیا ہے مگر اس کے مندرجات کو غلط قرار نہیں دیا۔

اس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ دو نامور صحافی 2018کے عام انتخابات کے بعد انہیں وزیراعظم بنائے جانے کا پیغام لیکر آئے اور الیکشن سے ایک ماہ پہلے تک مقتدر حلقوں سے ان کی ملاقاتوں میں کابینہ کے نام تک فائنل ہو رہے تھے۔

شہباز شریف کی باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ پارٹی کو لے ڈوبا اور مقتدر حلقوں نے اپنا وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ ایک انٹرویو میں ڈیل سے متعلق سوال پر شہباز شریف جذباتی ہو گئے اور انہوں نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے میں کوئی ’’احمق اور عقل کا اندھا‘‘ ہی ہو گا جو ڈیل کریگا۔

واقعی یہ کوئلوں کی دلالی والا کام ہے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ شہباز شریف خود گرفتار رہے، حمزہ شہباز جیل میں ہیں۔ بڑا بھائی جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے اور بھتیجی مریم نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔

اگر یہ تاویل درست تسلیم کرلی جائے کہ نواز شریف کے بیانیے نے ان کا کھیل بگاڑ دیا تو یہ دلیل بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ مزاحمت کے برعکس ان کے مفاہمت والے بیانیے نے پارٹی کو ضعف پہنچایا اور مسلم لیگ (ن) انتخابات نہیں جیت سکی لیکن اگر آپ ان دونوں میں سے کسی ایک بات کو درست سمجھتے ہیں تو آپ بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں کیونکہ میری رائے کے مطابق یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی پالیسی مسلم لیگ (ن)کی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔

اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ سب شہباز شریف کا کیا دھرا ہے اور انہوں نے مقتدر حلقوں سے بات چیت کرکے اپنے بھائی کے بیانیے کو نقصان پہنچایا ہے تو ایسا ہرگز نہیں۔ آپ اسلامی بینکنگ سے متعلق تو جانتے ہوں گے۔ ایک ہی شہر میں ایک بینک کی دو شاخیں، ایک جگہ جائیں تو عملہ بتائے گا کہ ٹرم ڈیپازٹ پر ہم سالانہ 9فیصد سود ادا کرتے ہیں۔

دوسری برانچ جائیں تو الفاظ کچھ یوں ہونگے، ہم سالانہ سرمایہ کاری پر ان شاء اللہ 9فیصد منافع ادا کریں گے لیکن دونوں میں سے جس برانچ میں رقم جمع کروائیں، فائدہ ایک ہی کمپنی کو ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) نامی کمپنی نے بھی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت دو شاخیں کھول رکھی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔