14 مئی ، 2020
پنجاب نے 15 شوگر ملز کو 3 ارب روپے سبسڈی دینے کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈال دی اور عثمان بزدار نے کمیشن کے سامنے اعتراف کیا کہ ان کی حکومت نے سبسڈی دینے سے پہلے شوگر ملز مالکان کے اس دعوے کی تحقیقات نہیں کرائی کہ آیا دو لاکھ میٹرک ٹن اضافی موجود بھی تھی یا نہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے چینی سبسڈی اسکینڈل کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کو گزشتہ روز اپنا ریکارڈ کرایا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کو بتایا کہ وفاق سے مشاورت کے بعد پنجاب کی 15 شوگرملز کو چینی کی سبسڈی 29 دسمبر 2018 کو بہاولپور میں ہونے والے اجلاس میں دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اکتوبر 2018 کو شوگرملز مالکان اور کاشتکاروں سے چار صوبائی وزرا نے سبسڈی کے معاملات پر بات کی، 18 اکتوبر کو اس معاملے پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، شوگرکا کرشنگ سیزن 30 نومبرکو ملز مالکان کی طرف شروع نہیں کیا گیا جس پر کاشتکاروں نے احتجاج شروع کردیا اور وفاقی حکومت نے جلد ملز مالکان کے مطالبات دیکھنے کا کہا۔
جب کہ شوگرملزایسوسی ایشن نے اشتہاری مہم شروع کی کہ شوگرسرپلس ہونے کی وجہ سے کرشنگ سیزن کا آغاز نہیں کرسکتے، اپنی بنائی ہوئی کمیٹی کی سفارش پر30 نومبر 2018 کو سابق وزیرخزانہ اسد عمرکوکاشتکاروں اورشوگر ملز معاملے کے حل کے لیے خط لکھا۔
عثمان بزدار نے بتایا کہ 4 دسمبر 2018 کو اسد عمر کی سربراہی میں ای سی سی نے ایک ملین ٹن شوگر ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مشروط طورپردی جس میں کہا گیا کہ سبسڈی کا تعین صوبے کریں گے، ای سی سی کے اجلاس کے بعد شوگر ملز مالکان کی طرف سے کرشنگ کا آغازنہ ہونے پر صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت اور وزیرخوراک سمیع اللہ چوہدری نے ساری صورتحال پرکابینہ اور مجھے بریفنگ دیمدونوں وزرا کو سننے کے بعد کابینہ کی طرف سے سفارش کی گئی 5.35 روپے فی کلوکے حساب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی کی منظوری دی جائے۔
ذرائع کے مطابق عثمان بزدار نے کمیشن کے روبرو بیان میں کہا کہ سبسڈی دینے کا فیصلہ انہوں نے اور ان کی کابینہ نے وفاق سے مشورے کے بعد کیا۔
عثمان بزدار نے کمیشن کے سامنے اعتراف کیا کہ ان کی حکومت نے سبسڈی دینے سے پہلے شوگر ملز مالکان کے اس دعوے کی تحقیقات نہیں کرائیں کہ آیا دو لاکھ میٹرک ٹن اضافی موجود بھی تھی یا نہیں۔
خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کا انتظار کررہے ہیں جو 25 اپریل تک کرلیا جائے گا تاہم بعد ازاں کمیشن کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی مہلت دی گئی تھی۔