بلاگ

کورونا بجٹ

 مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے آنے والے بجٹ کو ’’کورونا بجٹ‘‘ کا نام دیا ہے جو موجودہ حالات میں حکومت کیلئے یقیناً ایک بڑا چیلنج ہوگا—فوٹو فائل

بجٹ 2020-21کی تیاریاں زوروں پر ہیں، مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر نوشین امجد اپنی ٹیم کے ساتھ بزنس کمیونٹی کے نمائندوں سے ویڈیو کانفرنس پر مشاورت کررہی ہیں۔ 

حال ہی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس، پاکستان بزنس کونسل، اپٹما، ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اور دیگر چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کیں۔

فیڈریشن کے صدر نے ایف بی آر کو تجویز دی ہے کہ وہ بزنس کمیونٹی کو 6مہینے کا ریلیف دیں اور انہیں جاری کئے گئے نوٹسز فی الحال معطل کئے جائیں۔ انہوں نے موجودہ حالات میں سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کا مطالبہ بھی کیا۔

فیڈریشن نے سفارش کی کہ رینٹل انکم پر 15فیصد یونیفارم شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے جو اُن کی ٹیکس ادائیگی کا فائنل ہو۔آئی ایم ایف نے کورونا وائرس کے منفی اثرات کے پیش نظر اس سال کا ریونیو ہدف 4800ارب روپے سے کم کرکے 3900ارب روپے کردیا ہے اور 2020-21کیلئے ریونیو کا ہدف 5100ارب روپے دیا ہے جو اس سال سے تقریباً 30فیصد زیادہ ہے جو غیرحقیقی اور موجودہ معاشی بحران میں حاصل کرنا مشکل لگتا ہے۔

اپریل کے مہینے میں ملکی ایکسپورٹ میں 54فیصد جبکہ امپورٹ میں 32فیصد کمی ہوئی ہے جس کے مدنظر میں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ ایکسپورٹ کو فروغ دینے کیلئے بجٹ میں ٹیکسٹائل سمیت پانچوں ایکسپورٹ سیکٹرز پر زیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس نظام اور SRO-1125کو فوری بحال کیا جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ بجٹ میں حکومت نے پانچوں ایکسپورٹ سیکٹرز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرتے ہوئے ان کی ایکسپورٹ پر 17فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا تھا جسے بعد میں ریفنڈ کلیم کیا جا سکتا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ایکسپورٹ آرڈرز کی منسوخی، فیکٹریوں کی بندش، ورکرز کو تنخواہوں کی ادائیگی کے ساتھ چھوٹے ایکسپورٹرز کیلئے ممکن نہیں کہ وہ اپنی ایکسپورٹ کا 17فیصد سیلز ٹیکس اپ فرنٹ ادا کرکے ریفنڈ کا انتظار کرے جس کی وجہ سے اُن کا کیش فلو بری طرح متاثر ہورہا ہے۔

اس موقع پر میں ایف بی آر کی چیئرپرسن نوشین امجد سیلز ٹیکس کے آٹومیٹڈ ریفنڈ نظام FASTERمتعارف کرانے کو سراہتا ہوں لیکن ریفنڈ کے نئے نظام میں کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو بقایا سیلز ٹیکس ریفنڈ ملنے میں اب بھی مشکلات کا سامنا ہے جس کا میں نے ان سے ذکر کیا ہے۔

برطانیہ کا معروف اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (EIU)جو 60سال سے معاشی پیش گوئیاں کرنے میں دنیا میں مشہور ہے، نے کہا ہے کہ برطانیہ میں 300سال بعد اتنا شدید معاشی بحران دیکھنے میں آرہا ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں کورونا وائرس کے تناظر میں پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ پیش کیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاشی نقصانات کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 1.6فیصد کمی سے اِس سال منفی 1.57جی ڈی پی گروتھ اور ریکارڈ مالی خسارہ 9.6فیصد متوقع ہے۔ آئی ایم ایف، G-20اور دیگر ڈونرز ایجنسیوں کی طرف سے پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی میں مراعات کی وجہ سے 2020اور آئندہ چند برسوں میں پاکستان کے قرضوں کی ادائیگیوں میں ریلیف ملے گا۔ EIUرپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے ایکسچینج میکنزم کے تحت 2020میں ڈالر کی قدر 160روپے اور 2024میں 178روپے متوقع ہے۔

کورونا وائرس اور تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے باعث بیروزگاری کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے اس سال ترسیلاتِ زر میں نمایاں کمی متوقع ہے۔ رواں مالی سال ملک میں بیروزگاری کی شرح 14.7فیصد اور افراطِ زر کی شرح 7.4فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ EIU کے مطابق پاکستان کی 2019-20کی منفی معاشی گروتھ 2020-21میں 2.9فیصد اور 2021-22میں 3.4فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

رپورٹ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پالیسی ریٹ 13.25کو اس سال مارچ سے 5.25فیصد کم کرکے 8فیصد کی سطح پر لانے کو سراہا گیا ہے جس سے حکومت کو 1500ارب روپے سالانہ سود کی ادائیگی میں بچت ہوگی۔ 2020میں ایکسپورٹ میں 10فیصد جبکہ امپورٹس میں 20فیصد کمی ہوئی ہے جس کی خاص وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہے۔ 2020میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.6فیصد جبکہ 2024میں بڑھ کر 2.5فیصد متوقع ہے۔

وزیراعظم کے آئی ایم ایف سے منظور شدہ تعمیراتی پیکیج سے نئی ملازمتوں اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی کی اُمید ہے لیکن مکانات کی سپلائی کے ساتھ ساتھ حکومت کو ان کی طلب میں بھی اضافہ کرنا ہوگا جس کیلئے مکانات خریدنے کیلئے بینکوں کو کم ترین شرح سود پر قرضے فراہم کرنے ہونگےورنہ موجودہ معاشی بحران اور مندی میں نئے مکانات کی ڈیمانڈ مشکل نظر آتی ہے۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے حکومت کے ’’احساس پروگرام‘‘ کے تحت کروڑوں غریب ترین افراد کو 75ارب روپے کی امداد کو نہایت سراہا ہے۔ حکومت کو کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کیلئے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل درکار ہیں جبکہ معاشی سرگرمیوں کے سکڑنے اور لاک ڈائون کی وجہ سے 900ارب روپے کی ریونیو وصولی میں کمی آئی ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 80لاکھ افراد بیروزگار اور 2سے 7کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں اور 10لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کیلئے بند ہوسکتے ہیں۔ معاشی بندش کورونا سے زیادہ مہلک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے آنے والے بجٹ کو ’’کورونا بجٹ‘‘ کا نام دیا ہے جو موجودہ حالات میں حکومت کیلئے یقیناً ایک بڑا چیلنج ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔