حادثے کا شکار طیارے کے ملبے سے کروڑوں روپے کی ملکی و غیرملکی کرنسی برآمد

پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) کے طیارے کو گذشتہ دنوں پیش آنے والے حادثے کے بعد  ملک میں فضائی راستے سے بھاری رقوم کی غیر قانونی منتقلی کا انکشاف ہوا ہے۔

22 مئی کو  پی آئی اے کا لاہور سے کراچی آنے والا طیارہ رن وے سے چند سیکنڈز کے فاصلے پر آبادی میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 97 افراد جاں بحق جب کہ دو افراد معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔

 تباہ ہونے والے مسافر طیارے کے ملبے سے 3 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی ملکی اور غیرملکی کرنسی برآمد ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور یہ رقم 3 بیگوں میں ملبے میں مختلف مقامات سے ملی۔

اب سوال یہ کہ کیا طیارے میں کوئی مسافر اپنے ہمراہ اتنی بڑی رقم لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوسکتا ہے؟

اس حوالے سے  پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ بدقسمت طیارےسے رقم کی منتقلی کی اطلاع ائیر لائن کے پاس نہیں تھی۔

پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کوئی مسافر بڑی مقدار میں رقم نہ تو لگیج میں لے جاسکتا ہے اور نہ ہی ہینڈ کیری کر سکتا ہے ، اگر رقم لے جانی ہے تو پہلے ائیر لائن کو بتانا ہوگااور اسے ایک اضافی سیٹ خریدنا ہوگی اور رقم سے بھرا بیگ اس اضافی سیٹ پر رکھ کر سفر کرنا ہوگا۔

پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی فلائٹ سے رقم کی منتقلی کی ائیرلائن کے پاس کوئی اطلاع نہیں تھی، کسی مسافرنےکوئی اضافی سیٹ نہیں خریدی تھی، بھاری رقم کے 3 دعویدار اب تک سامنے آچکے ہیں۔

خیال رہے کہ اسٹیٹ بینک بھی بھاری رقوم کی منتقلی کے لیے بینکنگ چینل استعمال نہ کرنے کو درست نہیں سمجھتا۔

'ایکسچینج کمپنیاں رقم کی منتقلی بینک کے ذریعےکرنے کی پابند ہیں'

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پر اسٹیٹ بینک نے سال 2019ء میں ایکسچینج کمپنیوں کے لیے نقد رقم منتقلی کا طریقہ کار وضع کیا تھاجس کے مطابق ایکسچینج کمپنیاں ایک شہر سے دوسرے شہر رقم کی منتقلی بینک کے ذریعے ہی کرنے کی پابند ہیں۔

ایکسچینج کمپنیاں نقد رقم ڈاک کے ذریعے منتقل نہیں کر سکتی ہیں، جب کہ غیر ملکی کرنسی کی منتقلی کے لیے صرف ایکسچینج کمپنی کے ملازم ہی یہ کام کرسکتے ہیں۔ 

سوال یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک کی واضح ہدایات کے باوجود اتنی بڑی رقم طیارے کے اندر کیسے پہنچی جب کہ سیکیورٹی اسکینرز سے گزرتے ہوئے سیکورٹی حکام رقم کی اس منتقلی سے لازماً  آگاہ ہونے چاہئیں، اس بات نے بھی متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگادیے ہیں۔

مزید خبریں :