09 فروری ، 2012
کراچی… رفیق مانگٹ…دماغی سائنس میں انقلاب،ڈرونز اب دماغ سے کنٹرول کیے جاسکے گے۔نیورو سائنس کی مدد سے فوجی جوانوں،پائلٹوں اور دیگر افراد کی تر بیت ممکن ہوگی۔فوجی اپنے دماغ سے اپنے ہتھیارو ں کو کنٹرول کریں گے۔اس اہم پیش رفت میں انسانی دماغ سے ڈرونز جیسے ملٹری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کو برین مشین انٹرفیسز سے منسلک کیا جاسکے گا،جس کے ذریعے ہدف کا درست تعین اور اس کی عکاسی دماغ کو اس قابل کردے گی کہ خیال کے ابھرتے ہی ہتھیار اپنا نشانہ بنا لیں گے۔اس سائنس کے ذریعے بہتر کار کردگی کے لئے نئی طرز کی ڈرگز کی تیاری،دشمنوں کو گہری نیند سلانا اورحراست میں لیے گئے افراد سے راز اگلوانا ممکن ہو سکے گا اس میدان میں پیش رفت سے حادثات اور جنگی جرائم کی زد سے بچا جا سکے گا ۔ ان باتوں کا انکشاف لندن یونیورسٹی کے پروفیسر راڈ فلاور نے رائل سوسائٹی کے اجلاس کے دوران کیا۔وہ ملٹری ہتھیاروں کے استعمال اور دائرہ کار پر نیوروسائنس کی ممکنہ ترقی کے اثرات کا جائزہ پیش کر رہے تھے۔رپورٹ کا مقصد فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پروگراموں کے استعمال کو ممکنہ حدتک شفاف بنا نا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ نیوروسائنس میں تیزی سے ترقی نے یہ ممکن کر دیا ہے کہ بغیر پائلٹ حملے آپریٹر کی سوچ سے کنٹرول کیے جا سکیں گے لیکن انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کی نئی ٹیکنالوجی کا ڈرون ہتھیاروں میں استعمال اخلاقی سطح پر خدشات کو جنم دے گا۔لندن یونی ورسٹی کے ولیم ہاروے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کوئین کے بائیو کیمسٹ پروفیسر فلاور نے رائل سوسائٹی میں Brain-Machine Interfaces(BMIs) نامی ٹیکنالوجی کا ڈرونز میں استعمال سے نقصانات کو کم کرنا بتایا جو پاکستان، افغانستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف سی آئی اے کی طرف سے متعدد بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کی و جہ بن رہے ہیں اور ان کے استعمال نے دنیامیں اس کے قانونی اور اخلاقی جواز پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ برطانیہ کو آئندہ برس کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کے جائزے میں قانون نافذ کرنے والوں کے لئے حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کے متعلق اپنا رویہ واضح کرنا چاہیے ۔