09 جون ، 2020
شوگر مافیا کو ٹھکانے لگانے کیلئے اتوار کو اعلان کردہ سرکاری ایکشن پلان کے تحت، سات وفاقی اور صوبائی ادارے ان افراد کیخلاف سات مختلف طرح کی فوجداری، ضابطے کی اور ٹیکس سے جڑی کارروائی کریں گے جن کی نشاندہی شوگر کمیشن رپورٹ میں کی گئی ہے۔
کابینہ ارکان نے گزشتہ روز اس موضوع پر اپنی پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نام لیا کہ وہ شوگر سبسڈی کے ایشو پر نیب کی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ تاہم، شوگر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، وزیراعلیٰ پنجاب، وفاقی کابینہ کے ارکان اسد عمر، رزاق دائود اور ارباب شہزاد کو بھی سبسڈی کے اس ایشو پر نیب کے سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے کچھ دیگر رہنمائوں سے بھی سبسڈی پر سوالات کیے جائیں گے۔ جن شوگر ملوں کا آڈٹ کیا گیا ہے ان کے مالک سیاست دانوں سے بھی نیب اور 6؍ دیگر ادارے سوالات کریں گے، ان اداروں کو حکومت نے ذمہ داری دیدی ہے۔
ان سیاست دانوں میں جہانگیر ترین، شریف فیملی کے ارکان، چوہدری الٰہی فیملی، خسرو بختیار کے بھائی اور آصف علی زرداری شامل ہیں۔ نیب، ایف آئی اے، ایس ای سی پی، ایف بی آر، مسابقتی کمیشن پاکستان، اسٹیٹ بینک اور صوبائی اینٹی کرپشن محکموں کا نام منظور شدہ 7؍ نکاتی ایکشن پلان میں شامل ہے۔
ایکشن پلان میں مندرجہ ذیل سات نکات ہیں: 1) گزشتہ پانچ سال کے دوران ، بشمول پی ٹی آئی حکومت کے دور میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے شوگر انڈسٹری کیلئے منظور اور تقسیم کی جانے والی مجموعی طور پر 29؍ ارب روپے کی سبسڈی کی تحقیقات کیلئے نیب کو ریفرنس بھیجا جائے گا اور اس کیلئے نیب آرڈیننس میں موجود ٹائم لائن کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ نیب سے یہ بھی درخواست کی جائے گی کہ 1985ء سے آئندہ برسوں کے دوران دی گئی سبسڈی کی بھی تحقیقات کی جائے اور سبسڈی کے ایشو سے جڑے اختیارات کے ناجائز استعمال کے ثبوت ملنے پر فوجداری کارروائی کی جائے۔
2) ایف بی آر سے کہا گیا ہے کہ وہ انکم اور سیلز ٹیکس سے جڑے فراڈ، ٹیکس سے بچنے کیلئے کیے گئے اقدامات اور بے نامی لین دین کی تحقیقات کرے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کمیشن کی تحقیقات کے دوران ٹیکس میں فراڈ کے کئی معاملات دیکھنے کو ملے تھے۔ ایف بی آر سے کہا گیا ہے کہ وزارت خزانہ کے ذریعے انکوائری درج ہونے کے 90؍ دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔
3) شوگر انڈسٹری میں کارٹلازیشن اور مسابقت مخالف اقدامات سے جڑے معاملات کے حوالے سے تحقیقات مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کرے گا۔ انکوائری کمیشن نے بتایا تھا کہ سی سی پی کو شوگر کارٹیل کے متعلق 2009ء سے علم تھا اور ادارے نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کے دفتر کی تلاشی بھی لی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ کارٹل چلانے میں سب سے آگے ہے، تاہم ادارے نے اس وقت سے لیکر اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔
ایکشن پلان نے سی سی پی کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی ساکھ بحال کرے اور ساتھ ہی اب ادارے سے کہا گیا ہے کہ وہ مسابقت مخالف اور کارٹلائزیشن کی ملی بھگت کی تحقیقات کرے جیسا کہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔ سی سی پی سے کہا گیا ہے کہ وہ انکوائری کی رجسٹریشن کے 90؍ روز میں اپنی رپورٹ جمع کرائے۔ کمیشن بھی کارٹلائزیشن اور مسابقت مخالف ملی بھگت کی تحقیقات کرے گا۔
4) برآمدات کے نتیجے میں ہونے والی آمدنی کے معاملات، قرضوں میں ڈیفالٹ / قرضے معاف کرانا اور مرہون اسٹاک کی فروخت کے معاملات کی تحقیقات اسٹیٹ بینک آف پاکستان کرے گا۔ اسٹیٹ بینک سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی رپورٹ 90؍ دن میں پیش کرے۔
5) شوگر کمیشن نے نشاندہی کی تھی کہ شوگر ملوں نے ایسوسی ایٹڈ کمپنیوں کے ذریعے کارپوریٹ فراڈ کیا۔ مثلاً جے ڈبلیو ڈی پر الزام ہے کہ اس نےجے کے فارمنگ سسٹم لمیٹڈ نامی ایسوسی ایٹڈ کمپنی کی قیمت سے زائد خریداری کرکے 3.6؍ ارب روپے کا کارپوریٹ فراڈ کیا اور اسی کمپنی کے ذریعے نقصات کی بکنگ کی۔ ایکشن پلان میں شوگر ملوں کے کارپوریٹ فراڈ کی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ایف آئی اے اور ایس ای سی پی سے تحقیقات کا کہا گیا ہے۔ دونوں اداروں کو 90؍ دن میں رپورٹ جمع کرانے کو کہا گیا ہے۔
6) افغانستان کو چینی کی جعلی برآمدات اور منی لانڈرنگ کا معاملہ بھی تحقیقات کے دوران سامنے آیا اور یہ معاملات ایف آئی اے کو تحقیقات کیلئے دیئے گئے ہیں۔ ایجنسی سے کہا گیا ہے کہ وفاقی سطح کے کئی جرائم کی تحقیقات کرے اور ساتھ ہی افغانستان کو کی جانے والی جعلی برآمدات اور بھاری نقد رقم کی لین دین کے ذریعے منی لانڈرنگ کی بھی تحقیقات کرے۔ رپورٹ 90؍ دن میں جمع کرائی جائے۔
7) شوگر کمیشن نے یہ بھی دیکھا کہ شوگر ملیں صوبائی قوانین کے تحت بھی کئی طرح کے جرائم میں ملوث ہیں جن میں گنے کے کاشتکاروں کو سپورٹ پرائس سے کم قیمت دینا اور گنے کے وزن کی بنیاد پر غیر قانونی کٹوتیاں کرنا شامل ہیں۔ ایکشن پلان میں ایسے تمام جرائم کی تحقیقات کیلئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب، کے پی اور سندھ سے کہا گیا ہے کہ وہ تحقیقات کرکے اپنی اپنی رپورٹ 90؍ روز میں جمع کرائیں۔