09 فروری ، 2012
اسلام آباد… سپریم کورٹ کے اعتراض پر توہین عدالت کیس میں وزیراعظم گیلانی کی اپیل سے وہ حصے حذف کردئے گئے ہیں جو معزول ججوں کی حمایت سے متعلق تھے، چیف جسٹس افتخارچودھری نے کہاہے کہ سوئس حکام کو خط لکھادیاجائے تو معاملہ ختم ہوجائے گا، ملک کا پیسہ اسی صورت واپس آئے گا جب یہ خط لکھا جائے گا۔ چیف جسٹس افتخارچودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی لارجر بنچ نے وزیراعظم کی اپیل پر سماعت کی، وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دینا شروع کئے تو ججز نے اپیل میں شامل ان نکات پر تنقیدی ریمارکس دیئے جس موجودہ ججز کے غیر فعال ہونے کے دور سے متعلق اور ججز کی بحالی کے حوالے سے تھے، چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو کہاکہ آئینی عہدے دار اور چیف ایگزیکٹو نے عدالت کو نہیں خود کو پشیمان کیا، وزیراعظم کی تو بلند اخلاقی گراوٴنڈز ہوتی ہیں، انہوں نے کہاکہ اپیل کے بعض نکات سے عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی،ججز اور انکے بچوں کے بارے میں بھی نکات شامل کئے گئے، کیا اس بنیاد پر ریلیف دے دیا جائے عدالت تو انکے سامنے بھی نہیں جھکی جو خود کو بہت طاقتو سمجھتے تھے، جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ کیا ہم یہاں فیور لیتے ہیں، ایسا کہنا پرانا مائنڈ سیٹ ہے، جسٹس شاکراللہ نے کہاکہ کیا اب ہر کوئی کہے کہ ہم نے احسان کیا، بعد میں ہدایات لینے کے بعد ایڈووکیٹ آن رکارڈ نے اپیل سے ججز اور انکے بچوں سے متعلق پیراگراف خذف کرنے کا کہہ دیا، عدالت نے عبوری آرڈر لکھا کہ وزیراعظم کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ عدلیہ پر بطور ادارہ اثر انداز ہوسکتے ہیں،ایسا کرنا عدلیہ کو نہیں بلکہ خود کو شرمندہ کرنے کے مترادف ہے، اعتزاز احسن نے اپیل کے دیگر نکات پر دلائل دئے اور کہاکہ وزیراعظم کو شک کا فائدہ دیا جائے، یہ بہت دلچسپ ہے کہ وزیراعظم کو 2 اکتوبر 2010ء تک صرف ایک سمری ملی، چیف جسٹس نے ایک موقع پر کہاکہ حامدمیر کو انٹرویو میں کہاگیاکہ خط نہیں لکھیں گے، بعد میں سماعت کے دوران وقفہ کردیا گیا۔