ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا، بجٹ بنانے میں دقت پیش آرہی ہے: فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا، بجٹ بنانے میں دقت پیش آرہی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بجٹ اجلاس سے متعلق تمام قواعد معطل کردیے گئے، محدود پیمانے پر ارکان کو ایوان میں بیٹھنے کی اجازت دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کٹوتی کی تحاریک پر بھی بحث صرف کمیٹی روم میں سنی جائے گی، یہ کیسی پالیسی ہے؟  یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ہم ناکام بجٹ پر نکتہ چینی نہ کرسکیں لیکن ہم یہ نہیں ہونے دیں گے، بجٹ اجلاس میں شرکت کرکے عوامی نمائندگی کا حق ادا کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی ناکام کارکردگی کی بنیاد پر حکومت اپنے آپ کو نااہل ثابت کرچکی، ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا جس کے باعث بجٹ بنانے میں دقت پیش آرہی ہے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ کورونا کی موجودہ صورتحال میں بھی عوام کو ریلیف نہیں دیا جارہا، ایک طرف 25 ارب کا واویلا تو دوسری جانب ہزاروں روپے ٹیسٹ کی بنیاد پر لیے جارہے ہیں، بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں پر سفارت خانوں تک نے اپنے دروازے بند کردیے لیکن ہم اوورسیز پاکستانیوں کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیل ملز کے ساڑھے 9 ہزار لوگوں کو بیروزگار کیا جارہا ہے، یہ حکومت کی نااہلی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ معیشت سے متعلق جھوٹ بولا جاتا ہے کہ شرح نمو 2 فیصد سے زائد ہے، یہ منفی میں جارہی ہے، اس بارگندم، کپاس اور مکئی کی پیداوارمیں کمی ہوئی،  پیٹرول غائب ہوگیا، حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے، رہی سہی کسر ٹڈی دل نے پوری کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اعتراف کرے کہ دھاندلی کے ذریعے آئی اور ناکام ہوچکی ہے، عام آدمی کی مشکلات ہمارے مدنظر ہیں، عام آدمی کی مشکلات پر اپوزیشن کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے لیکن افسوس اپوزیشن وہ کردار ادا نہیں کررہی جس کی توقع قوم کو ان سے تھی۔

سربراہ جے یو آئی نے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے منصب پر بیٹھا شخص ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے لیکن وفاق کا مؤقف کچھ اور صوبہ کا کچھ اور ہوتا ہے، ریاست کے اجزا کی افراتفری قوم کو کیا پیغام دے رہی ہے؟ 

انہوں نے مزید کہا کہ پڑوسی ممالک کی صورت دیکھتے ہوئے قومی بیانیہ ضروری مگر یہ حکومت انتہائی نااہل ہے، جو ملکی صورتحال نہیں سنبھال سکتے وہ قومی بیانیہ پر کیسے اتفاق رائے پیدا کرسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ وفاقی بجٹ 21-2020 کی تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور 12 جون کو بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

مزید خبریں :