بلاگ
Time 15 جون ، 2020

ڈاکٹر ایس ایم ظفر بنام عثمان بزدار

فوٹو فائل—

ڈاکٹر ایس ایم ظفر کون ہیں؟ آپ اور میں تو جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں لیکن شاید وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں؟ ایس ایم ظفر صرف ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر قانون نہیں ہیں، وہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ہی نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے اُن کارکنوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے قائداعظمؒ محمد علی جناحؒ کی تقاریر اُن کے سامنے بیٹھ کر سنیں اور اُنہیں قریب سے دیکھا۔

وہ تحریک پاکستان کے مورخ بھی ہیں۔ ایک درجن سے زائد اہم کتابوں کے مصنف ہیں۔ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے وزیر قانون تھے۔ 19؍ستمبر 1965کو اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اُنہوں نے جنگ بندی کی قرارداد کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرایا۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن سے بھی خطاب کیا۔

کشمیری رہنما امان اللہ خان کو بلجیم میں گرفتار کر لیا گیا تو ایس ایم ظفر نے بلجیم کی عدالت میں بھارت کو شکست دے کر جے کے ایل ایف کے سربراہ کو رہائی دلائی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر ہالینڈ میں ایٹمی ٹیکنالوجی چوری کرنے پر مقدمہ درج ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے یہ مقدمہ بھی ہالینڈ کی عدالت میں ایس ایم ظفر کے ذریعہ جیتا۔ سینیٹر کی حیثیت سے ایس ایم ظفر نے اٹھارہویں ترمیم کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔

ایس ایم ظفر ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کے چیئرمین بھی ہیں۔ 10؍جون 2020ءکو انہوں نے مجھے ایک خط بھیجا۔ اس خط کے ساتھ اُنہوں نے ایک اور خط بھیجا ہے جو اُنہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو 30؍اگست 2019ءکو تحریر کیا تھا۔ ایس ایم ظفر نے وزیراعلیٰ پنجاب کے نام اپنا خط میڈیا کو جاری نہیں کیا تھا لیکن دس ماہ کے بعد اُنہوں نے یہ خط شائع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے نام اُن کا خط پیش ہے۔ انگریزی میں لکھے گئے خط کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔

مسٹر عثمان بزدار۔وزیراعلیٰ پنجاب، لاہور

ڈیئر وزیراعلیٰ!

مرحوم پروفیسر وارث میر نے اپنے قلم کو مولانا ظفر علی خان کی روایت کے عین مطابق استعمال کرتے ہوئے وقت کے ہر آمر کے سامنے عوام کے حقوق کیلئے آواز بلند کی۔ اُنہوں نے کبھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا اور عقل و فہم سے بھرپور تحریروں کے ذریعہ قوم کو ہمیشہ درست راستہ دکھایا۔

اُن کی خدمات کے پیش نظر ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان نے اُنہیں 1988ءمیں ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا۔ وہ ہمیشہ یاد رکھے جانے کے مستحق ہیں۔ جو قومیں اپنے ہیروز کو نظر انداز کرتی ہیں تاریخ میں نقصان اٹھاتی ہیں۔ میں ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ لاہور کی نہر پر واقع ایک انڈر پاس سے وارث میر کا نام ہٹانے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

وہ اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنی برادری کے اجتماعی مفادات کے حق میں قلم اٹھانے کی وجہ سے ہیومن رائٹس ایوارڈ حاصل کیا۔ آپ نے وارث میر انڈر پاس کو کشمیر انڈر پاس بنا دیا۔ کشمیر ہمارے لئے بہت بڑا کاز ہے۔ میری تجویز ہے کہ کینال روڈ کا ایسٹ بینک جو مال روڈ سے نیاز بیگ آتا ہے، کشمیر روڈ بنا دیا جائے۔ آپ کا مخلص

سینیٹر ڈاکٹر ایس ایم ظفر

ایس ایم ظفر صاحب کے عثمان بزدار کے نام خط پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کو اس خط کی سمجھ ہی نہیں آئی ہو گی۔ اب ایس ایم ظفر صاحب کا وہ خط پیش ہے جو اُنہوں نے اس ناچیز کو 10جون کو تحریر کیا۔

السلام علیکم

آج روزنامہ ڈان میں پنجاب کے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان صاحب کا بیان اور آپ کی جانب سے اُن کو ہرجانہ کے نوٹس کی خبر پڑھی، مجھے افسوس ہے کہ ہماری سیاست اس حد تک گر چکی ہے کہ ایک محب وطن کو غدار کہنے کیلئے کسی شہادت یا دلیل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کے بھائی عامر میر نے 1988ءمیں انسانی حقوق سوسائٹی کی اس تقریب میں شرکت کی تھی جب آپ کے والد کو انسانی حقوق ایوارڈ دیا گیا تھا۔

میری اور آپ کے والد، پروفیسر عثمان، نثار عثمانی اور امجد حسین کے کیساتھ اکثر قومی مسائل پر گفتگو میرے مال روڈ کے دفتر میں ہوتی رہتی تھی۔ میں ذاتی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر ان جیسے پروفیسر، صحافی اور لکھاری ہمارے معاشرے میں ہوں تو ہمارے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

جب پروفیسر وارث میر مرحوم کو یونیورسٹی نے ان کے مضامین کی اشاعت پر نوٹس دیا اور ان سے یہ تقاضا کیا کہ چونکہ وہ جامعہ کے ملازم ہیں اس لئے وہ اپنے مضامین اخبارات میں نہ لکھیں تو ان کی جانب سے میں نے جو جواب دیا تھا اس کا خلاصہ یوں تھا کہ ’’میں (وارث میر) جامعہ کے اسٹاف میں موجود ہونے کے باوجود اپنی آزادیٔ ضمیر و تحریر کا بنیادی حق رکھتا ہوں‘‘۔

اس جواب کے نتیجے میں یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اپنا نوٹس واپس لے لیا۔ میں آپ کو وارث میر کی انسانی حقوق تقریب ایوارڈ کا تعارف نامہ روانہ کر رہا ہوں جو کتاب ’’انسانی حقوق کے سفیر‘‘ کے صفحہ 341پر مل جائے گا۔

ضمناً جب وارث میر کا نام لاہور کینال روڈ کے پل پر بورڈ سے اتارا گیا تھا تو میں نے ایک خط وزیراعلیٰ پنجاب کو لکھا جس میں اُن کا نام بحال کرنے کا تقاضا کیا تھا۔ میں نے اس خط کی تشہیر مناسب نہیں سمجھی لیکن آپ کو روانہ کر رہا ہوں جس سے وارث میر مرحوم کے متعلق میرے خیالات کا اندازہ ہو جائیگا۔ والسلام ڈاکٹر ایس ایم ظفر

ایس ایم ظفر صاحب نے مجھے ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی شائع کردہ کتاب ’’انسانی حقوق کے سفیر‘‘ بھی بھجوائی ہے جس میں اُن شخصیات کا احوال موجود ہے جنہیں 1978ءکے بعد سے ہیومن رائٹس ایوارڈ دیا گیا۔

ان شخصیات میں پروفیسر وارث میر کے علاوہ مزدور لیڈر مرزا ابراہیم، علامہ احسان الٰہی ظہیر، اختر حمید خان، ادیب الحسن رضوی، افراسیاب خٹک، الیگزنڈر جان ملک، انصار برنی، مولوی تمیز الدین خان، جی الانہ، جعفر خان جمالی، جمی انجینئر، حامد خان، حبیب جالب، حسن نثار، حسین شہید سہروردی، حمید نظامی، حنا جیلانی، حیدر بخش جتوئی، خان عبدالولی خان، میر خلیل الرحمٰن، جسٹس دراب پٹیل، رسول بخش پلیجو، رئیس امروہوی، خواجہ محمد رفیق شہید، ضمیر نیازی، سردار عبدالقیوم خان، علی احمد کرد، فاضل راہو، محترمہ فاطمہ جناح، فیض احمد فیضؔ، مجید نظامی، محمود خان اچکزئی، مختار مائی، نثار عثمانی، نور الہدیٰ شاہ، نوابزادہ نصراللہ خان، میاں افتخار حسین، رمضان چھیپا، آمنہ مسعود جنجوعہ، جاوید ہاشمی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے علاوہ موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔

عمران خان کو شوکت خانم اسپتال کی وجہ سے ہیومن رائٹس ایوارڈ دیا گیا۔ اب تو ایس ایم ظفر کے علاوہ پنجاب اسمبلی بھی وارث میر انڈر پاس کی بحالی مطالبہ کر چکی ہے لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ عثمان بزدار نے وارث میر کے ساتھ وہی کیا جو موصوف کا ظرف تھا۔ وارث میر کی عزت افزائی پنجاب اسمبلی کی قرارداد سے ہو چکی اب وارث میر کو عثمان بزدار کی کسی مہربانی کی ضرورت نہیں۔

اللہ نے ہمیں توفیق دی تو ہم وارث میر کے نام پر ایک شاندار یونیورسٹی بناکر اپنے والد کا وہ مشن جاری رکھیں گے جو عشق رسولﷺ سے شروع ہو کر علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے نظریات کی ترویج پر ختم ہوتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔