بلاگ
Time 11 جون ، 2020

پروفیسر وارث میر کی وصیت

وارث میر کی تحریروں میں آپ کو آمریت، مذہبی انتہاء پسندی اور ابن الوقت اہلِ صحافت و دانش کی مذمت نظر آئے گی—فوٹو فائل

پنجاب اسمبلی نے 9جون کو پروفیسر وارث میر کے حق میں ایک قرارداد منظور کی تو مجھے اُن کی وصیت یاد آ گئی۔ اس وصیت کا ذکر میں نے اُن کی زبان سے بھی سنا تھا لیکن یہ وصیت 1983میں اُنہوں نے اپنے کالم میں بھی شائع لکھی جس کا عنوان تھا ’’ایک خواب جو حقیقت بن گیا‘‘۔ 

یہ کالم عامر میر کی مرتب کردہ کتاب ’’وارث میر کہانی‘‘ میں بھی شامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے 1977میں مارشل لاء لگایا اور صحافت پر پابندیاں لگ گئیں تو پروفیسر وارث میر اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے۔ وہ سٹی یونیورسٹی لندن میں دورانِ تعلیم بیمار پڑ گئے۔ 

ایک اسپتال میں ہرنیا کا آپریشن ہوا جو بگڑ گیا اور حالت بہت خراب ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اپنی وصیت لکھ دیں۔ پروفیسر وارث میر نے ایک مختصر وصیت تحریر کی جو کچھ یوں تھی ’’میں اپنی تمام منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد اپنی اہلیہ کے نام منتقل کرتا ہوں اور اپنے بچوں کو تاکید کرتا ہوں وہ اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھیں‘‘۔ یہ وصیت 1978میں لکھی گئی اور اُس وقت مجھ سمیت اُن کے تمام بچے اسکول میں پڑھتے تھے لیکن وہ اپنے بچوں سے اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھنے کی توقع رکھتے تھے۔

 اس وصیت کا اسپتال کے ڈاکٹروں، نرسوں اور مریضوں نے بڑا مذاق اڑایا اور پروفیسر وارث میر کو ’’مسٹر میر! سولجر آف اسلام، اللہ اکبر‘‘ کہا جاتا۔ مذاق کے اس ماحول میں اُنہوں نے خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت کی اور کچھ دنوں بعد پروفیسر وارث میر لندن کے اسپتال میں اپنا مضحکہ اڑواتے ہوئے مکہ جا پہنچے اور خانہ کعبہ کی زیارت کر رہے تھے۔ اسی پروفیسر وارث میر کے بارے میں پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان نے 23؍مئی کو ایک وڈیو بیان جاری کیا اور اُنہیں غدارِ وطن قرار دیا۔ 

وزیر اطلاعات کو غصہ تو مجھ پر تھا کیونکہ میں نے ہم ٹی وی پر محمد مالک کے پروگرام میں وزیراعلیٰ پنجاب پر تنقید کی تھی لیکن وزیر اطلاعات میرے والد مرحوم پر حملہ آور ہو گئے اور کہا کہ وارث میر نے 1971میں بھارتی فوج اور مکتی باہنی کی حمایت کی اور پھر خود بنگلہ دیش جا کر وزیراعظم حسینہ واجد سے ایوارڈ وصول کیا، اسی لئے پنجاب حکومت نے پچھلے سال پنجاب یونیورسٹی کے قریب وارث میر انڈر پاس کا نام بھی تبدیل کر دیا۔ 

وزیر اطلاعات کے اس بیان پر پنجاب اسمبلی کے ایک حالیہ اجلاس میں اپوزیشن رکن خلیل طاہر سندھو نے احتجاج کیا تو اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ وہ وارث میر کو ذاتی طور پر جانتے تھے اور وارث میر ایک محبِ وطن پاکستانی تھے۔ اگلے دن 9؍جون کو خلیل طاہر سندھو نے پنجاب اسمبلی میں وارث میر کی جمہوریت اور آزادیٔ صحافت کے لئے خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے قرار داد پیش کی جسے حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ 

اس قرارداد کی اہمیت یہ ہے کہ 23مئی کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اطلاعات نے جس شخص کو غدارِ وطن قرار دیا 9جون کو اُسی صوبے کی منتخب اسمبلی نے اپنی قرار داد کے ذریعہ غدارِ وطن کو ایک محبِ وطن پاکستانی قرار دے دیا۔ پاکستان میں غداری کے فتووں کے خلاف یہ قرار داد ایک پہلی موثر شعوری کوشش ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن یک زبان تھیں اور اس کا کریڈٹ خلیل طاہر سندھو کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی کو جاتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ پروفیسر وارث میر کے متعلق کس نے غلط معلومات پنجاب کے وزیر اطلاعات کو دیں۔ پروفیسر وارث میر کو چند برس قبل فیض احمد فیضؔ، حبیب جالب اور غوث بخش بزنجو سمیت کچھ دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ ’’فرینڈز آف بنگلہ دیش‘‘ ایوارڈ دیا گیا تھا، یہ وہ پاکستانی تھے جنہوں نے 1971کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ پروفیسر وارث میر کا ایوارڈ میں نے وصول کیا تھا۔ 

فیض احمد فیضؔ کا ایوارڈ ان کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے وصول کیا اور پاکستان واپس آ کر اُنہوں نے پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات کا حلف اُٹھایا تھا۔ یہ ایوارڈ وصول کرنے کی وجہ صرف اور صرف بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کیا تو میں نے ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا جس پر مجھے بنگلا دیشی حکومت کی طرف سے کچھ دن خاموشی کا پیغام دیا گیا اور پھر بنگلا دیش نے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کا اعلان کر دیا۔ 

آج بنگلا دیش اور بھارت کے تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہی جو کچھ سال پہلے تھی لیکن افسوس کہ آج بھی کچھ نام نہاد محبِ وطن بنگلا دیش اور بھارت کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وارث میر نے 1971کے آپریشن کی مخالفت کی لیکن مکتی باہنی کی حمایت نہیں کی تھی۔ وہ اکتوبر 1971میں پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک وفد لے کر ڈھاکا یونیورسٹی گئے۔ وفد میں حفیظ خان، جاوید ہاشمی، راشد بٹ مرحوم اور کچھ دیگر طلبہ شامل تھے۔ 

یہ وفد حکومت کی منظوری سے گیا اور ڈھاکا میں اس وفد پر خود کش حملے کی کوشش بھی ہوئی۔ اس دورے میں وارث میر نے وہاں جو دیکھا وہ فوری طور پر شائع نہ ہو سکا کیونکہ ملک میں صحافت پر سنسر تھا۔ اُن کے کالم دسمبر 1985میں روزنامہ جنگ میں شائع ہوئے اور یہ کالم بھی ’’وارث میر کہانی‘‘ میں شامل ہیں۔ ان کالموں میں آپ کو وارث میر کی بنگالیوں کے لئے محبت ضرور نظر آئے گی کیونکہ وارث میر بنگالیوں کو پاکستان کا اصل خالق سمجھتے تھے۔

 وارث میر کی تحریروں میں آپ کو آمریت، مذہبی انتہاء پسندی اور ابن الوقت اہلِ صحافت و دانش کی مذمت نظر آئے گی لیکن وہ ہر تحریر میں اسلام، پاکستان، جمہوریت اور آزادی صحافت کی جنگ لڑتے نظر آئیں گے۔ وارث میر اور مادرِ ملت محترمہ جناحؒ میں کچھ باتیں مشترکہ ہیں۔ وارث میر کو جنرل ضیاء کے حامیوں نے غدار قرار دیا، محترمہ فاطمہ جناحؒ کو جنرل ایوب خان نے خود دسمبر 1964میں ٹائم میگزین میں غدار قرار دیا۔ 

وارث میر کے لیے ایوارڈ کا اعلان حسینہ واجد نے کیا جبکہ فاطمہ جناحؒ نے ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑا تو شیخ مجیب الرحمٰن اُن کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ وارث میر اور فاطمہ جناحؒ دونوں کا یومِ وفات 9جولائی ہے۔ وارث میر کے حق میں پنجاب اسمبلی کی قرارداد منظور ہو گئی لیکن مادرِ ملت کے لیے بھی ایک قرار داد آنی چاہئے جس میں اُنہیں غدار قرار دینے والے کی مذمت کی جائے۔ یہ سطور لکھ کر میں نے اپنے والد مرحوم کی وصیت پر عملدرآمد کی ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔