04 ستمبر ، 2020
آج یعنی 4 ستمبر کو عالمی یوم حجاب کا دن منایا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو دیکھا جائے تو ہمیں صرف جماعت اسلامی کی خواتین خصوصاً مرحوم قاضی حسین احمد (اللّٰہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے) کی بیٹی ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی ہی ہر سال کی طرح بہت فعال نظر آتی ہیں۔
لیکن سمجھ نہیں آتا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کی خوب سازشیں ہو رہی ہیں اور جس میں بدقسمتی سے میڈیا کا اہم کردار ہے تو حجاب اور شرم و حیا کے فروغ کے لیے صرف جماعت اسلامی اور اس کی خواتین ہی کیوں کام کرتی نظر آتی ہیں۔
کیا دوسری سیاسی جماعتوں چاہے وہ ن لیگ ہو، پی پی پی، پی ٹی آئی یا کوئی اور اُن کا یہ مسئلہ نہیں؟؟؟ فحاشی و عریانیت سے جو تباہی ہو رہی ہے اور جو مزید ہو سکتی ہے اُس سے کوئی ایک سیاسی جماعت یا معاشرہ کا کوئی ایک حصہ ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ یہ سب کے لیے بربادی ہو گی۔
اس لیے کتنا اچھا ہو کہ حیا کے فروغ اور حجاب کے حق میں دوسری سیاسی جماعتوں کی خواتین بھی اپنی آواز بلند کریں اور اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر فحاشی و عریانیت کے خلاف ایک ساتھ کھڑی ہوں۔
ویسے اس موقع پر اچھا ہو گا کہ جماعت اسلامی کی خواتین اپنے کسی پروگرام میں وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کو بھی مہمان خصوصی کے طور پر بلائیں کیوں کہ وہ بھی ایک پردہ دار خاتون ہے اور خاتون اول ہونے کے ناطے اُن کے پردہ سے دوسروں کو ترغیت مل سکتی ہے۔
ہونا تو یہ بھی چاہیے کہ جب خواتین کو حجاب اور حیا کا درس دیا جائے تو مردوں کو بھی شرم و حیا کی تلقین کی جائے کیوں کہ شرم و حیا خواہ کوئی مرد ہو یا عورت دونوں کے لیے لازم ہے۔
اگر عورت کو گھر سے نکلنے کے لیے حجاب لینا چاہیے تو مرد کو بھی اپنی نگاہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عورتوں کو عزت دینی چاہیے۔ جہاں تک ریاست کا تعلق ہے وہ تو اس معاملہ میں بلکل ہی بے پروہ ہے حالاں کہ آئین پاکستان کو پڑھیں تو وہ ہر مسلمان پاکستانی کے لیے اسلامی ماحول کی فراہمی کا وعدہ کرتا ہے۔
ریاست و حکومت کی بے پرواہی کا ہی نتیجہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے جس کا جو دل چاہتا ہے پھیلا رہا ہے، گھٹیا ڈرامے دیکھائے جا رہے ہیں، قابل اعتراض اشتہارات اور دوسرا مواد ٹی وی چینلز پر چلایا جاتا ہے لیکن پیمرا سویا ہوا ہے۔
مجھے یہ ذاتی طور پر علم ہے وزیر اعظم عمران خان بھی پاکستان میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانیت کو سخت ناپسند کرتے ہیں لیکن اس معاملہ میں وہ کھل کر بات نہیں کر رہے۔ ہو سکتا ہے وہ بھی میڈیا سے ڈرتے ہوں کہ کہیں پیچھے نہ پڑ جائے۔
میری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے نہ صرف پی ٹی اے کو فحاشی پھیلانے والے ایپس کو بند کرنے اور یو ٹیوب سمیت دوسرے سوشل میڈیا اپلیکیشنز کو پاکستان میں فحش مواد پھیلانے سے روکنے کی ہدایت کی ہے بلکہ اپنے مشیر برائے اطلاعات جنرل عاصم باجوہ کو بھی حکم دیا ہے کہ پاکستان میں ڈراموں اور فلموں کو بے ہودگی سے پاک کرنے کے لیے ترکی کی طرح معیاری اور بامقصد ڈرامیں اور فلمیں بنائی جائیں۔
لیکن مجھے حیرانگی ہے کہ خان صاحب پیمرا کو کیوں سختی کے ساتھ یہ حکم نہیں دیتے کہ کسی ٹی وی چینل پر بے ہودگی اور فحاشی و عریانیت کو برداشت نہ کیا جائے، ایسے ڈراموں کو چلنے نہ دیا جائے جو معاشرےکی اخلاقیات کو تباہ کر رہے ہیں اور رشتوں کی حرمت کو برباد کر تے ہیں۔
یوم حجاب کے عالمی دن سے ایک روز قبل یعنی جمعرات کے روز ہی ایک خاتون کا ٹویٹ نظر سے گزرا جس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ایک اہم سکول سسٹم میں اُس نے ٹیچر بھرتی ہونے کے لیے ٹیسٹ دیا، پاس بھی ہو گئی لیکن انٹرویو میں تقاضہ کیا گیا کہ نوکری اُسی ملے گی اگر حجاب کے بغیر سکول میں آئیں گی۔
ایسے کئی واقعات پہلے بھی سامنے آ چکے جس پر حکومت و ریاست کی طرف سے کوئی سخت کاروائی نہ کی گئی جس کی وجہ سے پردہ اور حجاب لینے والی خواتین کو ملازمت لینے میں مشکل ہوتی ہے اور یہ اُس پاکستان میں ہو رہا ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور جسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کاوعدہ کل بھی کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ یہاں کچھ ٹی وی چینلز اپنی خواتین اینکرز کو سر ڈھاپنے سے روکتے ہیں۔ ہمارے ہاں مردوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اپنی خواتین کے لیے تو کچھ اور معیار مقرر کرتے ہیں لیکن گھر سے باہر اور ملازمت کی جگہوں میں دوسری خواتین کے بے پردہ اور کھلا ڈلا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایسے بے شرم مردوں کے لیے بھی کوئی حیا ڈے منایا جانا چاہیے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)