10 ستمبر ، 2020
بہتر طرز حکمرانی، سول سروس اور پولیس میں اصلاحات اور انسٹیٹیوشن بلڈنگ کے موضوعات پر بولتے ہوئے میں نے عمران خان کو تمام سیاستدانوں سے آگے پایا۔ اُنہیں جب بھی میں نے سنا ہمیشہ ایسا لگا کہ اُنہیں پاکستان میں گورننس کی خرابی کی وجوہات، سول سروس اور پولیس کے سیاست زدہ ہونے اور سرکاری اداروں کی نالائقی کا سب کا ادراک ہے۔
اسی لئے وہ ہر بار کہتے رہے، حتیٰ کہ اپنے پارٹی منشور میں بھی اس بات کو شامل کیا کہ وہ سول سروس خصوصاً پولیس کو غیرسیاسی کریں گے، افسران کو اُن کی معیاد پوری کئے بغیر تبدیل نہیں کیا جائے گا، سول سروس اور پولیس میں اصلاحا ت لائی جائیں گی، اچھے اور ایماندار افسروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، کرپٹ افسران کا احتساب کیا جائے گا اور سرکاری افسران کے کام میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن افسوس گزشتہ دو برسوں میں جو کچھ وزیراعظم عمران خان کی حکمرانی میں پوری دنیا نے دیکھا وہ بالکل اُن تصورات اور اُن خیالات کے برعکس تھا، جو خان صاحب ماضی میں پیش کرتے رہے۔
بلکہ خان صاحب نے بیوروکریسی اور پولیس کو اتنا سیاست زدہ اور کمزور کر دیا کہ اب تو کوئی سرکاری افسر کسی عہدہ پر ایک سال بھی گزار دے تو سمجھا جاتا ہے کہ کمال ہو گیا۔
وفاقی و صوبائی سیکریٹریوں، چیف سیکرٹریز اور آئی جی کا اتنا بُرا حال ہو چکا کہ محسوس ہوتا ہے جیسے اُن کے ساتھ میوزیکل چئیر کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور سب سے بدتر صورتحال پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی ہے جہاں کسی کو کہیں ٹکنے ہی نہیں دیا جاتا۔ پانچ آئی جی پولیس اور شاید چھ چیف سیکریٹری ان دو برسوں میں پنجاب میں بدل چکے۔
سابق آئی جی خیبر پختونخوا ناصر درانی کے تعریفیں کر کر کے خان صاحب نہیں تھکتے تھے لیکن خان صاحب کی حکومت جو پولیس اور سول سروس کے ساتھ کر رہی ہے اُسے دیکھ کر ناصر درانی صاحب نے وزیراعظم صاحب سے معذرت کر لی کہ وہ پنجاب میں پولیس ریفارمز کا کام نہیں کر سکتے بلکہ اُنہوں نے یہ ذمہ داری دیے جانے کے چند ہی ہفتوں میں احتجاجاً ایک آئی جی کے غلط طریقہ سے تبدیل ہونے پر استعفا دے دیا تھا۔ اُن کے بعد تو آئی جیز کا پنجاب میں آنا جانا معمول بن گیا اور پولیس مزید سیاست زدہ ہو گئی لیکن گزشتہ روز جو کچھ ہوا اُس نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ کہنا بہتر ہوگا کہ پولیس کی اصلاحات کے بجائے ایسی تیسی کر دی گئی۔
آئی جی کے خلاف اُس کے ماتحت کمانڈ افسر نے لاہور پولیس کے افسران کے سامنے سخت باتیں کیں جس پر اُس ماتحت افسر کے بجائے وزیراعظم عمران خان نے آئی جی ہی کو بدل دیا۔ ماتحت افسر بھی وہ جس کو خان صاحب نے خود ہی دو ماہ قبل اس لئے گریڈ 21میں پروموٹ نہیں کیا کہ خان صاحب نے اُس افسرکی کارکردگی اور ریپوٹیشن کو خراب پایا۔
وزیراعظم کو اس افسر کے بارے میں جو انٹیلی جنس رپورٹ ملی وہ بھی بہت سنگین تھی جبکہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات اور بورڈ کی اس افسر کے بارے میں رائے بھی بہت منفی تھی جس کو منظور کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس افسر کو ترقی نہیں دی جس کے لئے دو ماہ کے بعد ہی پنجاب کے آئی جی کو ہی تبدیل کر دیا گیا۔
وزیراعظم نے سنٹرل سلیکشن بورڈ کی جن سفارشات کو منظور کیا اُس کے مطابق ایسی داغدار شہرت کا حامل افسر نہ صرف اہم عہدے حاصل کرنے کیلئے سرکاری عمل میں ہیرا پھیری کرتا ہے بلکہ ایولیوایشن سسٹم میں بھی بچ نکلتا ہے۔ بورڈ نے اپنے مشترکہ فیصلے ،جس کو وزیراعظم نے منظور کیا، میں کہا کہ مذکورہ افسر سی کیٹگری کا ہے اور اس کی ترقی کا معاملہ سول سرونٹس پروموشن رولز 2019کے تحت منسوخ کر دیا کیونکہ وہ ترقی کیلئے مطلوبہ اہلیت نہیں رکھتا۔
دو مہینوں میں ایسا کیا معجزہ ہوا کہ وہ افسر جسے وزیراعظم نے ترقی دینے سے انکار کیا اور سی کٹیگری ڈکلیئر کیا وہ اے کیٹیگری ہو گیا اور اُسے لاہور جیسے اہم ترین شہر کا نہ صرف پولیس سربراہ لگا دیا بلکہ اُس کی اپنے آئی جی کے خلاف پولیس کے افسروں اور جوانوں کے سامنے تقریر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے آئی جی کو ہی بدل ڈالا۔
عمران خان نے جو کیا اُسے میں تو سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پولیس اور سول سروس کو مکمل تباہ کر کے خان صاحب نئے سرے سے دوبارہ کھڑا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر واقعی پولیس و سول سروس کو وہ تباہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)