ایک ٹویٹ پر دیسی لبرلز جیسے پاگل ہوگئے

جس دن میرا گزشتہ کالم ’’عمران خان بڑھتی فحاشی سے پریشان‘‘ شائع ہوا اُسی شام (یعنی گزشتہ سوموار کی شام) مجھے ایک وفاقی وزیر کی طرف سے پی ٹی وی پر چلنے والا ایک کلپ موصول ہوا جس میں ایک خاتون کو چست مغربی لباس میں ایک ٹرینر ایکسر سائز کروا رہا تھا۔

یہ کلپ بھیجنے والے وزیر کے ساتھ ساتھ میرا بھی یہ خیال تھا کہ سرکاری ٹی وی کے لئے ایسا کلپ چلانا غیرمناسب ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب وزیراعظم عمران خان ہماری دینی و معاشرتی اقدار کو مغربی اور بھارتی ثقافت کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لئے فلم اور ٹی وی خصوصاً پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو سدھارنے کے لئے جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ کو ہدایات دے چکے ہیں۔

سرکاری ٹی وی چینل کو تو پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق ہی ہر قسم کا مواد نشر کرنا چاہئے کجا یہ ہے وہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی نقالی میں وہ کچھ دکھائے جو معاشرہ کی بگاڑ کے ساتھ ساتھ عورت کا استحصال بھی ہو۔ میں نے اس وڈیو کو ٹویٹ کر کے صرف اتنا لکھا کہ وزیراعظم صاحب یہ پروگرام پی ٹی وی پر چلا ہے۔

اس ٹویٹ کے ساتھ ہی ایسا لگا جیسے ہمارے دیسی لبرلز اور سیکولرز کا ایک طبقہ کو آگ لگ گئی ہو۔ یہ لبرلز مجھ پر جیسے حملہ آور ہو گئے، مجھ پر ذاتی حملے شروع کر دیے، گالیاں بکنے لگے، طعنے دینے لگا۔ نجانے میں نے ایسا کیا جرم کیا کہ ایک وزیر صاحب بھی آگ بگولہ ہو گئے اور مجھے جنسی حوالہ سے ایک طعنہ دے کر نفسیاتی علاج کا مشورہ دے ڈالا۔ اسی سوچ کی مالک ایک خاتون وزیر نے فوری اپنا حصہ ڈالتے ہوئے وزیر صاحب کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا۔ کچھ خواتین اینکر پرسنز نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے مجھے پر طعنہ زنی کی۔

میں نے چند ایک کے علاوہ کسی کو جواب نہ دیا اور جو جواب دیے اُن کا خلاصہ صرف یہی تھا کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں اُسے قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے تناظر میں جانچا جائے۔ اسی دوران بی بی سی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے دوسرے کچھ صحافتی اداروں نے مجھے اپنے نشانے پر لے لیا اور ایسا تاثر دیا جیسے میری ایسی تیسی ہو گئی ہو۔ جس پر میں نے ایک ٹویٹ کیا، جو میرے دل کی آواز تھی اور جس نے اس لبرل طبقہ کے غصہ کو مزید بھڑکا دیا حالاں کہ میں اپنی سوچ کا اظہار کر رہا تھا۔

انگریزی میں لکھے گئے میرے اس ٹویٹ میں مَیں نے کہا کہ اگر ساری دنیا بھی میرے خلاف اس لئے ہو جائے کہ میں نے پاکستانی معاشرہ میں کسی غیراسلامی اقدام کی مخالفت کی ہے تو مجھے اس کی ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی فکر نہیں بلکہ میں اپنے ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھ (جیسے گنہگار شخص) سے یہ کام لیا، جو میرے لئے بہت فخر کی بات ہے۔

میں نے یہ بھی لکھا کہ ﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے، آمین۔ اس کے باوجود شام دیر تک اس طبقہ کی طرف سے مجھ پر طعن و تشنیع اور گالم گلوچ کا سلسلہ جاری رہا جس پر میرے کچھ عزیر اور دوست بہت پریشان تھے۔

ایک قریبی عزیز نے مجھ سے کہا کہ میں بہت اداس ہوں، لوگ آپ کو کیوں گالیاں دے رہے ہیں۔ میں نے اُسے سمجھایا کہ مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ میرے ﷲ نے مجھے اسلام کی بات کرنے کی توفیق دی۔ ابھی گالم گلوچ اور طعنہ زنی کا سلسلہ جاری تھا کہ میرے رب کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دم سے ٹویٹر پر #WeSupportAnsarAbbasiکا ٹرینڈ چل پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک دو گھنٹوں میں ہی پاکستان میں ٹویٹر کا سب سے اہم ترین ٹرینڈ (topmost trend) بن گیا جس کے ساتھ ہی دیسی لبرلز ایسے غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ یہ بازی ایسی پلٹی کہ دل نے فوری گواہی دی کہ بےشک عزت اور ذلت صرف میرے ﷲ کے ہاتھ میں ہے۔

وفاقی حکومت کی طرف سے صرف وزیر مملکت علی محمد خان نے پی ٹی وی پر چلنے والے پروگرام کو اسلامی تعلیمات کے خلاف اور آئینِ پاکستان سے متصادم گردانا اور کہا کہ ریاستِ مدینہ کے اصولوں کی سختی سے پاسداری کرنی چاہئے جس پر میرے دل سے اُن کے لیے دعا نکلی۔ مجھے معلوم ہے کہ وزیراعظم نے بارہا میٹنگز میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی پر اپنی فکر کا اظہار کیا۔

مجھے جنرل عاصم باجوہ نے خود بتایا کہ اس سلسلے میں وزیراعظم نے اُن کو ہدایات بھی دیں لیکن ایسا کیوں ہے کہ جس بُرائی کو وزیراعظم روکنا چاہتے ہیں اُسکے پرچار میں اُن کے چند وزیر بہت آگے نکل جاتے ہیں۔

یہاں میں ایک بات اور کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے چاہے دیسی لبرلز کے طبقے نے جو مرضی کہا، میں خود بھی یہی پسند کرتا ہوں اور دوسروں سے بھی یہ توقع رکھتا ہوں کہ اُنہیں جو جواب دیا جائے وہ تہذیب کے دائرہ میں ہو۔ وہ جو مرضی کریں، ہمیں اپنی بات پُرامن طریقہ اور اچھے انداز میں کرنی چاہئے۔ میری ہمدردی اُن تمام خواتین سے ہے جو لبرلز اور پیسہ کے لالچی کارپوریٹ ورلڈ اور میڈیا کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں۔

خواتین کو چائے، دودھ یا کوئی دوسری اشیاء بیچنے اور ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کو بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کی ہمیں اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ایک اسلامی ریاست میں ایسے کسی بھی عمل کو ناممکن بنا دینا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

یہ کالم روزنامہ جنگ میں 24 ستمبر کو شائع ہوا ہے۔

مزید خبریں :