05 اکتوبر ، 2020
پاکستان ریلوے نے کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) منصوبے کی بحالی میں اب تک کی پیشرفت کی تفصیلات جاری کردی ہیں۔
پاکستان ریلوے کی رپورٹ کے مطابق کراچی سرکلر ریلوےکے پہلے مرحلے میں کراچی سٹی اسٹیشن سے منگھو پیر تک 12 کلو میٹر ٹریک بحال ہو چکا ہے جب کہ اورنگی اسٹیشن تک 14 کلومیٹر کا ٹریک مکمل کیاجائےگا جس پرکام جاری ہے۔
دوسرے مرحلے میں اورنگی اسٹیشن سےگیلانی اسٹیشن (گلشن اقبال) 7کلو میٹر اور تیسرے مرحلے میں گیلانی اسٹیشن سے ڈرگ کالونی تک 9 کلومیٹرکا ٹریک بحال کیا جائےگا۔
رپورٹ کے مطابق 44کلومیٹرپر مشتمل کے سی آر ٹریک میں 20 اسٹیشنز اور 24 پھاٹک ہیں جس میں سے 30کلومیٹر لوپ لائن اور 14کلومیٹر مین لائن پر بنا ہے،کل 20 اسٹیشن ہیں جن میں سے 15 لوپ لائن اور 5 مین لائن پر ہیں۔
پاکستان ریلوے کے مطابق پورے ٹریک پر 24 لیول کراسنگ یعنی پھاٹک قائم ہیں جن میں سے 15 لیول کراسنگ کی مرمت کے لیے سوا 15 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
کراچی سرکلر ریلوے کے کوچز کی تیاری کاکام اسلام آباد کیرج فیکٹری میں جاری ہے، 7 تیار ہیں جب کہ جنوری تک 40 کوچز تیار کرلی جائیں گی، ہرکوچ میں 96 مسافروں کے لیے 64 نشستیں اورکھڑے ہونے والے مسافروں کے لیے 32 ہینڈ ہولڈ بار لگائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ واش رومز، پنکھے، ٹی وی،وائی فائی اور موبائل چارج کرنے کی سہولیات بھی موجود ہوں گی۔
پاکستان ریلوے کی رپورٹ کے مطابق کے سی آر منصوبے کو 3 مراحل میں بحال کیا جائےگا، پہلے مرحلے میں یومیہ 32 ٹرینز کےذریعے 16 ہزار مسافر سفر کریں گے اور کل فاصلہ آدھے گھنٹے میں طے ہوگا جب کہ اپ گریڈیشن کے بعد ٹرینوں کی تعداد 48 جب کہ مسافروں کی گنجائش بڑھ کر 24 ہزار ہوجائےگی اور سفرکا دورانیہ کم ہو کر 19 منٹ رہ جائےگا۔
دوسری جانب وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اسلام آباد میں کیرج فیکٹری کا دورہ کرکے کوچز کی تیاری کاجائزہ لیا۔
کے سی آر کیلئے وزارت ریلوے کو 10 ارب روپیہ ملا ہے، شیخ رشید
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کراچی سرکلر کی بحالی کیلئے 40 کوچز بنا رہے ہیں، اب تک کیرج فیکٹری میں7 کوچز تیار کی جاچکی ہیں،3 ماہ میں 40 کوچز تیار کرلیں گے،اس کے لیے وزارت ریلوے کو 10 ارب روپیہ ملا ہے۔
خیال رہے کہ 10 اگست کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ریلوے کو ہدایت کی تھی کہ سرکلر ریلوے اسی سال چلنی چاہیے۔