Time 03 نومبر ، 2020
دنیا

امریکی انتخابات: جوبائیڈن کو ٹرمپ پر برتری

امریکا میں 59 ویں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکا بھر میں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل جاری ہے اور پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کی قطاریں لگی ہوئی ہے۔

مختلف ریاستوں میں منگل کی صبح شروع ہونے والی ووٹنگ بدھ کی صبح تک جاری رہے گی، سب سے پہلے کینیڈا کی سرحد کے قریب ریاست نیو ہیمپشائر کے چھوٹے سےگاؤں سے ووٹنگ کا آغاز ہوا ۔

ماہرین نے اس مرتبہ توقع سے زیادہ ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کی ہے  جب کہ قبل از وقت ووٹنگ اور ڈاک کے ذریعے تقریباً 10کروڑ سے زائد امریکی اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے انتخابات سے قبل 24 اکتوبر کو فلوریڈا میں اپنا ووٹ ڈالا تھااور ان کے حریف جو بائیڈن نے بھی 28 اکتوبر کواپنا ووٹ ڈال دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق قبل ازوقت ووٹ کاسٹ کرنے والوں میں 45 فیصد لوگوں وہ ہیں جو ڈیموکریٹس یعنی جو بائیڈن کے حامی ہیں جب کہ 30.5 فیصد ری پبلکن جماعت یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں۔

امریکی صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر اور ری پبلیکن امیدوار ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن کے درمیان سخت مقابلہ ہے جب کہ مختلف انتخابی جائزوں(پولز) میں  جوبائیڈن کو ٹرمپ پر واضح برتری حاصل ہے۔

کورونا وائرس کی لہر کے باوجود پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کی قطاریں لگی ہوئی ہے،فوٹو: اے ایف پی

 ڈونلڈ ٹرمپ  متعدد بار انتخابات میں دھاندلی ہونے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں اور انہوں نے ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی مخالفت کی ہے۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ ایری زونا، جارجیا، وسکونسن، پنیسلوینیا اور فلوریڈا کے علاوہ ٹیکساس، شمالی کیرولائنا، اوہایو، مشی گن اور منی سوٹا کی ریاستیں 'سوئنگ اسٹیٹس' ہیں یعنی یہاں کسی ایک امیدوار کی برتری نہیں اور ملے جلے رجحان کے باعث کوئی بھی جیت سکتا ہے جس سے الیکشن میں بازی پلٹ سکتی ہے۔

زیادہ ووٹ کا حصول انتخاب میں کامیابی ضمانت نہیں!

خیال رہے کہ زیادہ ووٹ لینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ امیدوار صدر بن جائے گا کیونکہ امریکا میں صدر کا انتخاب براہ راست عام ووٹر نہیں کرتے بلکہ یہ کام الیکٹورل کالج کا ہے۔

اصل میں امریکی عوام جب صدر کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں تو دراصل وہ صدارتی اُمیدوار کی سیاسی جماعت کے ریاستی نمائندے کو ووٹ دے رہے ہوتے ہیں، ان نمائندوں کو الیکٹر کہتے ہیں، امریکا میں کُل 538 الیکٹرز ہیں، الیکشن سے پہلے ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے الیکٹرز کا انتخاب کرتی ہے، یہ زیادہ تر پارٹی رہنما یا مقامی پارٹی اہلکار ہوتے ہیں، ایلکٹرز کے نام بیلٹ پیپر پر شائع نہیں کیے جاتے، وہ ووٹروں کے لیے اجنبی ہوتے ہیں۔

فوٹو: اے ایف پی

عوامی ووٹ صدارتی امیدوار کو ہی ڈالا جاتا ہے، ہر ریاست میں وہاں کی آبادی کے حساب سے ایوانِ نمائندگان(ایوان زیریں) کی تعداد جتنے الیکٹر ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ہر ریاست کو حجم اور آبادی کے قطع تعلق سینیٹ کی طرز پر دو اضافی الیکٹرز بھی ملتے ہیں۔

 ویسے تو انتخابات کے ایک ماہ بعد دسمبر کے اوائل میں یہ الیکٹرز صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں لیکن چونکہ یہ اپنی ریاست کے عوام کی خواہشات کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں اس لیے نومبر کی ووٹنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی پاپولر ووٹوں کی بنیاد پر صدارتی کامیابی ظاہر ہو جاتی ہے۔ 

امریکہ کا صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 538 میں سے 270 یا اس سے زیادہ الیکٹرز کی حمایت درکار ہوتی ہے۔

 قبل از وقت ووٹنگ اور ڈاک کے ذریعے تقریباً 10کروڑ سے زائد امریکی اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں،فوٹو: اے ایف پی

 عام طور پر ہر ریاست میں سب سے زیادہ عوامی ووٹ حاصل کرنے والے صدارتی امیدوار کو اُس ریاست کے تمام الیکٹورل کالج ووٹ حاصل ہو جاتے ہیں۔ 

2016ء میں صدر ٹرمپ نے ریاست فلوریڈا میں ہلیری کلنٹن کو صرف 2.2 فیصد سے شکست دی لیکن تناسب کے بجائے ٹرمپ نے اس اہم ترین انتخابی ریاست کے تمام 29 الیکٹورل ووٹ اپنے نام کر لیے، یہی وجہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں ریاستی کامیابی کا تناسب غیر ضروری ہوتا ہے۔ 

 حالیہ برسوں میں دو ایسے صدارتی انتخابات ہوئے ہیں جن میں پاپولر ووٹ میں شکست پانے والا اُمیدوار ملکی صدر بن گیا،2000 میں ڈیموکریٹک امیدوار ایلگور نے جارج بُش سے 5 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن ہار گئے  اور 2016 میں ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ سے 3 لاکھ زیادہ ووٹ ملے لیکن وہ بھی ہارگئیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ  

ٹرمپ 2016ء کے صدارتی انتخابات کے نتیجہ میں ریاست ہائے متحدہ کے 45 صدر منتخب ہوئے تھے،فوٹو: فائل

 ٹرمپ کو تو سب جانتے ہی ہیں، وہ امریکا کے موجودہ صدر اور وہاں ایک کاروباری شخصیت ہیں جو سنہ 2016ء کے  صدارتی انتخابات کے نتیجہ میں ریاست ہائے متحدہ کے 45 صدر منتخب ہوئے تھے۔

متنازع ترین ہونے کے باوجود امریکا کے صدارتی انتخاب جیتنے والے ڈونلڈ ٹرمپ 14 جون 1946ء کو نیویارک کے علاقے کوئنز میں پیدا ہوئے۔ 13 سال کی عمر میں انہیں نیویارک ملٹری اکیڈمی بھیجا گیا جہاں وہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسیات طلبہ کا حصہ بھی بنے۔

ٹرمپ نے 1968ء میں یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے معاشیات میں گریجوایشن کی،بزنس ٹائیکون فریڈ ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ نے والد کے قرض سے ذاتی کاروبار شروع کیا۔ 1971ء میں خاندانی کمپنی کا کنٹرول حاصل کیا اور اُس کا نام بدل کر ٹرمپ آرگنائزیشن رکھا اور  اپنے ہوٹلوں، کسینو اور تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے ملک گیر شہرت حاصل کی۔

70 سالہ ٹرمپ کے مطابق، ان کے اثاثے 10 بلین ڈالر سے زائد ہیں، ٹرمپ کی پہلی دو شادیاں ناکام رہیں۔ سابق ماڈل میلانیا کناوس سے ٹرمپ نے 2005ء میں تیسری شادی کی۔ ٹرمپ شوبز انڈسٹری اور ذرائع ابلاغ سے بھی خاصے متعلق رہے۔

انہوں نے 1987ء میں پہلی بار ٹرمپ نے صدارتی انتخاب لڑنے میں دلچسپی ظاہر کی،2000ء میں انہوں نے ریفارم پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کی جب کہ 2008ء میں ٹرمپ ایک بار پھر اس وقت توجہ کا مرکز بنے جب انہوں نے صدارتی امیدوار باراک اوباما کی جائے پیدائش امریکا کی بجائے کینیا کو قرار دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جون 2015ء میں ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا اور حریفوں کو مات دیتے ہوئے پارٹی کی نامزدگی حاصل کر لی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پے در پے اسکینڈلوں، متنازع اور نفرت انگیز بیانات ٹرمپ کی انتخابی مہم پر پوری طرح چھائے رہے اور 2016ء کے امریکی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہو ئے۔

 جو بائیڈن 

جوبائیڈن سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دونوں ادوار میں ان کے نائب صدر رہے ہیں،فوٹو: فائل

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے جو بائیڈن صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابات2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل ہیں ۔ صدارت کا اصل مقابلہ انہی دو سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہے ۔

جوبائیڈن نے 20 نومبر 1942 کو امریکی ریاست پینسلونیا کے شہر اسکرینٹن کے ایک محنت کش آئرش کیتھولک خاندان میں آنکھیں۔ 1968 میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد1972 میں ریاست ڈلاویئر کی ڈیموکریٹک پارٹی سے بطور کامیاب سینیٹ امیدوار اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1973 سے2009 تک ایک کامیاب سینیٹرز کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیے۔

2009میں امریکا کے 47 ویں نائب صدر منتخب ہونیوالے جوبائیڈن سابق  امریکی صدر بارک اوباما کے دونوں ادوار میں ان کے نائب صدر رہے ہیں۔

 ایک ہزار 216 افراد عہدہ صدارت کے امیدوار

 امریکی فیڈرل الیکشن کمیشن کے مطابق امریکا میں ان دونوں کے علاوہ بھی تقریباً ایک ہزار 214 افراد ایسے ہیں جو الیکشن 2020 میں امریکی صدر کے عہدے کے امیدوار ہیں، ان افراد میں مختلف پارٹیوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں، تاہم اکثر افراد ان جماعتوں کے نام سے ہی واقف نہیں ہیں، ایسی جماعتوں کو 'تھرڈ پارٹی' کہاجاتا ہے اس کے علاوہ صدارتی دوڑ میں آزاد امیدوار بھی شامل ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق فی الحال ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتاکہ امریکا میں تھرڈ پارٹی امیدواروں میں سےکوئی صدر بن سکے تاہم یہ ضرور ہےکہ یہ امیدوار ری پبلکن اور ڈیموکریٹس امیدواروں کے ووٹ ضرور متاثرکرتے ہیں۔

گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ امریکا میں تھرڈ پارٹی امیدوار زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکے جس کی بڑی وجہ کورونا وائرس اور معاشی مشکلا ت ہیں جس کی وجہ سے یہ امیدوار بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلانے میں ناکام رہے ہیں۔

مزید خبریں :