29 نومبر ، 2020
جنوبی ایشیا ایسا بد قسمت خطّہ ہے۔ جہاں علاقائی تعاون کی آرزوئیں خاک ہورہی ہیں۔ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی تنظیمیں آسیان۔ یورپی یونین۔ افریقی یونین۔ نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ سب ایک دوسرے سے اشتراک کررہی ہیں۔ تجارت، صنعت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ یورپی یونین تو ایک کرنسی یورو اختیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ پاسپورٹ ویزے کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک قدم آگے نہیں بڑھا سکی۔
یہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا خطّہ ہے۔ ایک ارب 80کروڑ انسان ان 8ملکوں بھارت۔ پاکستان۔ بنگلہ دیش۔ نیپال۔ بھوٹان۔ سری لنکا۔ مالدیپ۔ افغانستان میں سانس لیتے ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا قریباً 24فی صد ۔ اتنی بڑی تعداد میں انسان زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ امن اور سکون سے بھی۔ اور اس کی وجہ اس خطّے کے سب سے بڑے ملک بھارت کی انتہا پسندی۔ دہشت گردی اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ اب 2014 میں نریندر مودی کے دہلی راجدھانی سنبھالنے کے بعد سے تو بھارت انتہا پسند ہندو ذہنیت کا گڑھ بن گیا ہے۔ نہ تو بھارت کے اپنے لوگ خوش ہیں اور نہ ہی ہمسایوں میں سے کوئی آرام سے زندگی بسر کرسکتا ہے۔
دنیا تو کیا ہم بھی چھ دہائیوں سے بھارت کی جمہوریت، تحمل و برداشت کی مثالیں دیتے آرہے ہیں۔اپنے ہاں مارشل لاؤں کی مذمت کرنے کے لیے ہمارے دانشور، سیاسی رہنما، ادیب، شاعراور قانون دان بڑی شد و مد سے کہتے رہے ہیں کہ بھارت میں ہمیشہ حکومت ووٹ سے تبدیل ہوتی ہے۔ وہاں فوج نے کبھی نظم و نسق نہیں سنبھالا۔ اور یہ بھی کہ وہاں سیکولرازم کا دور دورہ ہے۔ ہندو۔ مسلم۔ سکھ۔ عیسائی ۔ بدھ۔ جین سب مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کے ہاں سادگی، کفایت شعاری ہے۔ وہاں عدلیہ آزادی سے فیصلے کرتی ہے۔ اخبارات، ٹی وی، ریڈیو آزاد ہیں لیکن آج کا بھارت جمہوریت، سیکولرازم کا شمشان گھاٹ ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مرکز بن گیا ہے۔ وہاں ہندوؤں کی چھوٹی ذاتیں محفوظ ہیں نہ اقلیتیں۔ مسلمان آبادی ملک کا 13فی صد ہیں۔ قریباً 20کروڑ لیکن ہر لمحے اذیت اور بربریت کے شکار عیسائی پونے 3کروڑ کے قریب وہ بھی مصائب سے دوچار ہیں۔ سکھ قریباً 2کروڑ ان کے احتجاج اور علیحدگی پسندی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہندو توا پورے زوروں پر ہے۔ دوسرے تمام مذاہب پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا کررہے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی میں انتہا پسندی کی بھی انتہا ہوگئی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے بعض امن پسند گروپ پہلے کوششیں کرتے تھے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان براہ راست رابطے ہوں تو شاید بھارت کے متعصب۔تنگ نظر حکمرانوں پر قیام امن کے لیے دباؤ بڑھے۔ لیکن بی جے پی سرکار کے بعد یہ کوششیں بھی بے سود ہوگئی ہیں ۔ دونوں ملکوں کی آزادی پر شمعیں جلانے والے کلدیپ نائر سورگباش ہوگئے۔ ادھر پاکستان سے ڈاکٹر مبشر حسن بھی اللہ کو پیارے ہوئے۔ حقوق انسانی کے حوالے سے جدوجہد کرنے والے دوسرے گروپ بھی اب جنوبی ایشیا میں امن کے لیے سازگار فضا نہیں پارہے ہیں۔ میرا بھی 1972سے مختلف صحافتی ادبی اور علمی کانفرنسوں کے لیے بھارت جانا ہوتا رہا ہے۔ شملہ مذاکرات کی رپورٹنگ کے لیے گیا بعد میں وزیر اعظم اندرا گاندھی سے خصوصی انٹرویو کے لیے بھی 21روز قیام رہا۔ آگرہ مذاکرات کیلئے گئے تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے خصوصی گفتگو ہوئی۔ بعد میں مشرف من موہن مذاکرات کی رپورٹنگ بھی کی۔ بھارت میں بہت سے ہندو، مسلمان، عیسائی ادیب شاعر ، صحافی دوست ہیں۔ اب بھی ان سے سوشل میڈیا پر رابطہ رہتا ہے۔ ایک دو سال بھارت کے کئی اخبارات میں بیک وقت کالم بھی چھپتا رہا۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے جو آپ کا بھی ہوگا کہ بھارت کے عام لوگ خطّے میں امن و سکون کے خواہاں ہیں۔ آرام سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف شہروں میں رکشے ٹیکسی ڈرائیوروں دکانداروں ہوٹل کے ویٹرز سے بات ہوتی تھی۔ تو وہ یہی کہتے تھے یہ نیتا (سیاسی لیڈر) ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ تو دو وقت کی روٹی ہے۔
اب نریندر مودی کے دَور میں تو کسی کانفرنس میں جانے کا ارادہ ہی نہیں کرسکتے۔ ویسے بھی قیام امن کے لیے اب کوئی مربوط کوشش نہیں ہورہی ہے۔ اکھنڈ بھارت کا جنون زوروں پر ہے۔ پاکستان میں مستقل بد امنی پیدا کرنا، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کی سازشیں بی جے پی کا ایجنڈا ہے۔ اپنے اس انتہا پسند پروگرام میں اس حد تک مصروف ہے کہ کورونا کی عالمگیر وبا سے اپنے شہریوں کی جانیں بچانے پر مطلوبہ توجہ نہیں دےسکی۔ اب تک مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب اموات ہوچکی ہیں۔ اپنے لوگوں کی صحت بی جے پی کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اس لیے کورونا کی ابتدا سے ہی بھارتی حکمران موزوں حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکے۔
میری تشویش یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جمہوریت کے تجربے کے نتیجے میں معاشرے مہذب ہوئے ہیں۔ تحمل ،برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کی جانیں محفوظ ہوئی ہیں۔ لیکن یہ سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں انسانیت کا قتل کیوں ہورہا ہے۔ تہذیب، اقدار کا جنازہ کیوں نکل رہا ہے۔ کیا جمہوریت کے دعوے فریب تھے۔ سیکولرازم ایک ڈھونگ تھا۔ اب تو پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے باقاعدہ ثبوت بھی دنیا کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ اگر امریکہ یورپ ان ثبوتوں کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تو ان کی جمہوریت، انصاف پسندی اور انسانیت نوازی بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے گی۔ بھارت کی اس پاکستان دشمنی کے خلاف پاکستان سے ہر شہری ہر سیاسی کارکن ہر دانشور ہر سیاسی جماعت کو یک آواز ہونا چاہئے۔ خاص طو رپر سمندر پار پاکستانیوں کو حرکت میں آنا چاہئے۔ یہ کسی ایک حکومت یا ایک سیاسی پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ بحیثیت مملکت بقا کا سوال ہے۔
اس سال کے آغاز میں بھارت میں ہندوتوا کے خلاف ملک گیر احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ مگر کورونا کے پھیلاؤ کے باعث اس میں تعطل آگیا۔ اس احتجاج کے مقابلے میں مودی سرکار بے بس ہوگئی تھی۔ یہ احتجاج یقیناً پھر شروع ہوجائے گا۔
یہ مملکت پاکستان۔ عمران حکومت۔ وزارت خارجہ۔ ساری قومی سیاسی پارٹیوں کی آزمائش ہے کہ وہ بھارت کو ایک انتہا پسند اور دہشت گرد مملکت قرار دلوانے کے لیے دنیا پر کیسے دباؤڈالتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی ملکوں کی تنظیم۔ مسلم حکمرانوں کو اپنے اتحاد اور یکجہتی سے کیسے قائل کرتے ہیں۔ بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کروانا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ کیونکہ بھارت نے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرکے اپنی ایک ارب سے زیادہ صارفین پر مشتمل مارکیٹ کا لالچ دے کر امریکہ اور یورپ کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔