Time 19 دسمبر ، 2019
پاکستان

بھارت ایک سیکولر ملک؟

فوٹو فائل—

میرا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ میں حق اور سچ کی بات کروں اور جہاں کہیں نا انصافی اور ظلم ہو رہا ہو،اس کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ مجھے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے سلسلے میں بھارت یاترا کا موقع ملتا رہتاہے، میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ جب بھی کشمیر کی بات ہوتی ہے تو بھارتی مسلمان اس میں زیادہ گرم جوشی نہیں دکھاتے بلکہ وہ بھی اپنے ملک بھارت سے اتنی ہی زیادہ محبت کا اظہار کرتے ہیں جتنا ہندو اور کرسچیئن شہری۔تاہم بھارت سے موصول تازہ خبروں کے مطابق موجودہ بھارتی حکومت کی متنازع پالیسیوں نے پورے ملک میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردیا ہے۔

 مختلف علاقوں میں پرتشدد احتجاج ہوئےہیں، لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں، مختلف تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل تعطل کا شکار ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس اقدام کو بھارتی آئین کے منافی قرار دے رہی ہیں، کم از کم پانچ بھارتی ریاستوں نے اس متنازع قانون شہریت کو نافذ کرنے سے انکار کردیا ہے۔اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائض مسلمان افسران کی طرف سے احتجاجاََ استعفیٰ دینے کی اطلاعات ہیں۔ امریکہ سمیت عالمی برادری کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امکان ہے کہ اس افسوسناک صورتحال میں غیرملکی سربراہانِ مملکت کے دورہ بھارت بھی ملتوی ہوجائیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں سے متعلق جو معاملہ کشمیر تک محدود تھا وہ اب پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، متنازع بل کی رُو سے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں بسنے والے غیرمسلم شہریوں کیلئے بھارت کی شہریت کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں لیکن مذہبی بنیادوں پر مسلمان ا س سہولت سے مستفید نہیں ہوسکیں گے۔ 

آزادی کے بعد سے بھارت عالمی برادری کے سامنے اپنے آپ کو ایک سیکولر ریاست کے طور پر پیش کرتا رہا ہے جہاں پر ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور وہ اپنی مرضی سے جیسے چاہے زندگی گزار سکتا ہے لیکن حالیہ بھارتی اقدام نے نہ صرف مسلمانوں کو شدید عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے بلکہ خود بھارت کے سیکولر ملک ہونے کے دعوے پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

 میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی یہی لکھا تھا کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا لیکن پاکستان بنتے ہی بانی پاکستان نے ایک قومی نظریہ کا درس دیا کہ اب پاکستان میں رہنے والے تمام باشندے ایک قوم ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ، وہ کسی بھی علاقے کے رہنے والے ہوں سب پاکستانی ہیں۔ 

بھارت کی بات کی جائے تو اس نے کبھی دو قومی نظریہ کو تسلیم نہیں کیا،لیکن حالیہ اقدام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے بڑوں نے قائد اعظم کی قیادت میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قیام پاکستان کا درست فیصلہ کیا تھا، پاکستانی ہندو کمیونٹی کو فخر ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے بعد پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنانے کا عزم کیا۔ 

موجودہ بھارتی قیادت نے متنازع قانون سازی کا جواز ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے شہریوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کوبنایا ہے، میری نظر میں اگربھارت کو ہمسایہ ممالک کے مظلوم شہریوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو میانمار کے بدنصیب روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھارتی سرزمین کیوں تنگ کی جارہی ہے؟

اس حوالے سے میں نے سرحد پار کچھ لوگوں سے تبادلہ خیال کیا تومجھے بتایا گیاکہ چونکہ بھارت میں مسلم کمیونٹی کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور ہندو آبادی کم ہو رہی ہے، اس لئے موجودہ قیادت کو یہ خدشہ ہے کہ بھارت عنقریب ایک ایسا مسلمان اکثریتی ملک بن سکتا ہے جہاں مسلمان حکومت سازی اور قانون سازی جیسے امور پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ ہندوووٹ بینک میں اضافے کیلئے ہمسایہ ممالک سے غیر مسلم مہاجرین کی بڑی تعداد کو شہریت دینے کا پلان بنایاگیا ہے۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل کے حوالے سے ایسے تمام خدشات کی بنیاد مضحکہ خیز ہے اوردنیا کی سمجھدار قومیں صرف خدشات کی بناء پر اپنی نظریاتی بنیادیں کھوکھلی نہیں کرتیں۔ایسا غلط فیصلہ کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے نہ صرف اپنے آئین کے ساتھ زیادتی کی ہے بلکہ جمہوریت اور سب سے بڑھ کر مذہب کو متنازع بنانے کی جسارت کی ہے کیونکہ دنیا کا ہر مذہب حق اور انصاف کا درس دیتاہے۔

 اسلام کی بات کی جائے یا رامائین کی، مذہبی تعلیمات کا محور ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت پر زور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خدا کی رحمت سب کے لئے یکساں ہوتی ہے، ہمیں ہر ایک کے ساتھ پیار محبت اور شفقت سے پیش آنا چاہئے اورکسی انسان کو اس کے مذہبی عقائد کی بناء پراس کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہئے۔ 

اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اس سے وہ غلط فیصلے کرواتا ہے اوران غلط فیصلوں کے اثرات معاشرے میں نفرت کی صورت میں نکلتے ہیں اورخون خرابہ ہوتا ہے۔ میری نظر میں اس بل کا بھارت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے کوئی مسلمان شہری بھارت ہجرت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا جبکہ بھارت کو سب سے بڑا نقصان اپنے ملک سے محبت کرنے والی مسلمان کمیونٹی کو احساس عدم تحفظ کا شکار ہونے کی صورت میں ہو گا۔

 ایسا متنازع بل عالمی سطح پر اس کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویٰ کو بھی دھچکا پہنچائے گا، اسی طرح اس اقدام نے قائداعظم کے دو قومی نظریہ کو بھی تقویت فراہم کی ہے۔ اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا ہر مذہب میں راستہ موجود ہے، آج بھارتی قیادت کو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے بھارت کا دنیا بھر میں تاثر مثبت بنانے کے لئے اس بل کو واپس لینا چاہئے۔ پاکستان کا ہر محب وطن سمجھدار ہندو شہری بھارتی قیادت کے حالیہ اقدام کے پس منظر عوامل کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور پاک سرزمین کو چھوڑنے کا کسی صورت تصور بھی نہیں کرسکتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

مزید خبریں :