بلاگ
Time 23 دسمبر ، 2020

بےنظیر کا سیاسی سفر

فائل:فوٹو

اُس وقت 70کلفٹن میں کوئی 100کے قریب کارکن تھے۔ بےنظیر بھٹو نے ہال میں بورڈ لگا کر مارکر اُٹھایا اور سمجھانے لگیں کے چاکنگ کیسے کی جاتی ہے اور کہاں کہاں کرنی ہے۔ پھر کہا کوشش کرنا گرفتار نہ ہو۔ اگر ایک نعرہ لکھ رہا ہے تو دوسرے کو آنے جانے والوں پر نظر رکھنی ہے۔ سیاسی کلاس ختم ہوئی تو سب مختلف ٹولیوں میں نکل پڑے۔

یہ بات جولائی 1977کی ہے جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ سے ضمانت کے بعد دوسری بار گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن میں بیشتر جیالے آج بھی زندہ ہیں البتہ ’’بلاول ہاؤس‘‘ سے دور ہیں۔ بس اتنا ہی فرق ہے اُس وقت کی پی پی پی اور آج کی پی پی پی میں۔

یہ بےنظیر بھٹو کی مزاحمتی سیاست کی ایک جھلک تھی کیونکہ اُس نے خود سکھر کی بدترین جیل کی سی کلاس سیل میں قید کاٹی۔ گوکہ بےنظیر کا اصل مزاحمتی رنگ 1977سے 1987تک نظر آیا مگر ایک 16؍سال کی نوجوان لڑکی نے ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھٹو کی گرفتاری پر پلے کارڈز لکھ کر اپنی دوستوں کے ساتھ بھی ایک مظاہرہ کیا تھا۔

ایک بار کہا کہ میں موت سے بہت ڈرتی تھی مگر اُس آخری ملاقات نے، جو ڈیتھ سیل میں دو اور تین اپریل 1979کو بھٹو صاحب سے ہوئی، یہ خوف بھی ختم کر دیا۔ بھٹو پھانسی چڑھ کر مزاحمت کی علامت بن گیا اور یہ ’’علم‘‘ بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی نے اٹھا لیا۔

بےنظیر اور بیگم بھٹو کو جب قذافی اسٹیڈیم میں لاٹھیاں پڑیں تو انتظامیہ کو یقین تھا کہ وہ خوف زدہ ہو جائیں گی مگر اِس کا ردعمل الٹا ہوا۔ ایک مشکل مرحلہ اُس وقت آیا جب حزبِ اختلاف کی کچھ جماعتوں نے نئے سیاسی اتحاد جس کا آگے چل کر نام تحریک بحالی جمہویت (ایم آر ڈی) رکھا گیا، کیلئے دونوں ماں بیٹی کو پیغام دیا کہ وہ 70کلفٹن آنا چاہتے ہیں۔ یہ 1980کی بات ہے جب ابتدائی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

 یہ آسان نہیں تھا کیونکہ کچھ رہنماؤں پر بھٹو کی پھانسی کی حمایت کا الزام تھا مگر پھر بیگم صاحبہ نے معاف کردیا اور یوں 1981میں پاکستان کی سیاست کا سب سے موثر اتحاد بنا۔ بدقسمتی سے 1988میں پی پی پی کی کامیابی کے بعد انہیں مشروط حکومت دینے کا فیصلہ ہوا۔ اگر اُس وقت بی بی انکار کردیتیں تو شاید اقتدار منتقل نہ ہوتا مگر سیاسی فائدہ بہت ہوتا۔

بےنظیر نے جنرل اسلم بیگ کو ’’تمغۂ جمہوریت‘‘ دے کر یہ پیغام دیا کہ وہ انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتیں مگر جواب میں 9ماہ بعد ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور پھر 6؍اگست 1990کو حکومت کی برطرفی نے ثابت کیا کہ پیغام شکریہ کے ساتھ واپس کردیا گیا۔

بہتر ہوتا اگر غلام اسحاق خان کی جگہ ایم آر ڈی کے رہنما نوابزادہ نصر اللہ خان کی حمایت کی جاتی۔ ’’جمہوریت بہترین انتقام‘‘ کا فلسفہ سیاسی مفاہمت میں تو سمجھ میں آتا ہے جیسا کہ 2006کا ’’میثاق جمہوریت‘‘ مگر تمغہ جمہوریت یا 2007میں این آر او (NRO) سیاسی کمزوری اور مصلحت کی نشانی ہے۔ شاید پی پی پی کے بہت سے لوگ میری اس رائے سے اختلاف کریں مگر مجھے اس طرح کی ’’سیاسی مفاہمت‘‘ سیاسی مصلحت لگتی ہے اور اس کا آگے چل کر نقصان پھر سیاست دانوں کو ہی ہوتا ہے۔

این آر او کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات ہیں کچھ پارٹی کے اندر کے لوگوں پر جو وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں اور اس وقت بھی بی بی کو یہی بتایا گیا کہ سارے معاملات ٹھیک ہورہے ہیں۔

جب کچھ عرصے بعد ان کو پتا چل گیا تو انہوں نے NROکے خاتمہ کا اعلان کرکے جب 18؍اکتوبر 2007کو واپسی کا پیغام دیا تو ان کو بھیانک نتائج کی دھمکی دی گئی۔ سازش صرف باہر سے نہیں اندر سے بھی ہوئی ہے۔

یہ مفاہمت کروانے والے پریشان تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب یہ طے تھا اور ’’امریکی‘‘ بھی مان گئے تھے کہ بےنظیر الیکشن کے بعد آئیں گی اور پہلے چھ ماہ مخدوم امین فہیم وزیراعظم ہوں گے تو یہ اچانک کیا ہوا۔ ایک پیغام یہ دیا گیا کہ ’’مزاحمتی بےنظیر‘‘ قبول نہیں اور پھر اس فارمولے پر عمل شروع ہوگیا جس کا اختتام نہ صرف ان کی شہادت پر ہوا بلکہ پارٹی کی ’’مزاحمتی سیاست‘‘ پر بھی ہوا۔

اور… پھر یوں ہوا کہ مفاہمت ان سے آگے بڑھائی گئی جن پر شک خود محترمہ نے کیا تھا۔ حیران ہوں تو صرف ان پارٹی کے سینئر رہنماؤں پر جو ’’مزاحمتی سیاست نہ کھپے‘‘ کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ کسی ایک میں بھی یہ سیاسی اور اخلاقی جرات نہ ہوئی کہ ’’شہادت پر سودا نہیں ہوتا‘‘۔ کچھ تو جانے دیا گیا اور کچھ کو ساتھ ملا لیا گیا۔

بےنظیر کا 18؍اکتوبر کے حملے پر لکھا جانے والا خط بے اثر ہوگیا۔ پاکستان تو ہمیشہ کھپے مگر کیسے یہ اصل سوال ہے۔ بےنظیر کی سیاسی زندگی کا آغاز مزاحمت پر ہوا اور اس نے بدترین جیل بھی دیکھی، سلوک بھی دیکھا، لاٹھی بھی کھائی، اور گولی۔ 5؍جولائی 1977کو بھٹو صاحب نے بیگم بھٹو سے کہا کہ تم اور بچے اگر باہر جاسکو تو چلے جاؤ۔ یہی بات انہوں نے کچھ رہنماؤں سے بھی کہی جن کے چہرے سے خوف جھلک رہا تھا وہ چلے بھی گئے۔

مرتضیٰ اور شاہ نواز کو ہدایت کی کہ تعلیم مکمل کرو مگر بیگم بھٹو اور بےنظیر نے باہر جانے سے انکار کردیا۔ آخر میں وصیت کی کہ ’’جدوجہد کے ساتھیوں‘‘ کو یاد رکھنا ’’انکلوں‘‘ پر زیادہ انحصار نہ کرنا۔ میں نے بےنظیر کی شہادت سے کوئی ایک ہفتہ پہلے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں پوچھا اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو پارٹی کون چلائے گا ہنس کر بولیں ’’کارکن‘‘۔ کیا ان کی شہادت کے بعد ایسا ہی ہوا۔ مجھے تو بس ان کی یہ ’’سیاسی وصیت‘‘ یاد ہے۔ باپ کی طرح بیٹی بھی سیاسی طور پر امر ہوگئی مگر شاید کچھ لوگ پھر مفاہمت کے لئے مزاحمت کررہے ہیں نتائج کی پروا کئے بغیر۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔