بلاگ

عمران خان اور مقتدرہ

آپریشن بنیان مرصوص کی برکت سے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی مانند متحد ہو گئی ہے، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور پاک فضائیہ کے سربراہ کی قیادت میں مسلح افواج نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔

 پاک فضائیہ کی برتری عالمی طور پر تسلیم کر لی گئی ہے،بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے پوری دنیا پر اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی ہے، پوری قوم نے ایک عرصے کے بعد ایسے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے کہ پوری دنیا دنگ رہ گئی ہے، قوم کے نوجوان جنہوں نے سوشل میڈیا کا محاذسنبھالے رکھا ان کی صلاحیتوں کا اعتراف آئی ایس پی آر اور بین الاقوامی میڈیا برسر عام کر رہا ہے۔

پاکستان کی تمام سیاسی اشرافیہ نے بلا تفریق مسلح افواج کی پشت پناہی کی ہے، تمام سیاسی قیادت نے اسی بیانیے کو سپورٹ کیا جو پاکستان کی مقتدرہ کی جانب سے تشکیل دیا گیا تھا۔ آج پوری دنیا میں پاکستان کی فتح کے پھریرے لہرا رہے ہیں،پاکستان کے گن گائے جا رہے ہیں،پاکستانی پاسپورٹ کو ایک مرتبہ پھر قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے،آپریشن بنیان مرصوص کی وجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار پاکستان اور پاکستانی قیادت کا ذکر کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کا آپریشن سندور ابھی ختم نہیں ہوا،بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے آنے والے انتخابات کے لیے کسی نہ کسی ''شکار ''کی تلاش میں ہے۔

 بھارتی نیوی کی از سر نو صف بندی کی جا رہی ہے،رافیل طیاروں کی ذلت آمیز کارکردگی کے بعد بھارت اپنے اسلحہ کے انبار میں نئے ہتھیاروں کا اضافہ کرنے جا رہا ہے، اس لیے اس خوش فہمی میں رہنے کی بجائے کہ ہم نے میدان مار لیا ہے ہمیں بھارت کے جارحانہ عزائم کے سامنے مستقل بنیادوں پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے رہنا ہے۔

اس معرکہ کے دوران پاکستان کی تمام سیاسی قیادت نے جس بالغ نظری کا ثبوت دیا اس کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی، پاکستان تحریک انصاف کی صف اول کی قیادت اگرچہ پابند سلاسل ہے تاہم ان کے ذمہ داران کی طرف سے اکا دکا مستثنیات کے علاوہ مناسب بیانات سننے کو ملے۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بلاشبہ اس وقت مزاحمتی بیانیہ کی بدولت پاکستانی قوم میں مقبولیت کی معراج کو پہنچے ہوئے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد وہ پہلے سیاستدان ہیں جو آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں اور جنہیں مطالعہ سے بھی شغف ہے وہ تاریخ کا گہرا شعور رکھتے ہیں، وہ اپنے کردار کو حال کے بجائے مستقبل کے تاریخی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

عمران خان کے بیانیے میں مزاحمت کا عنصر نمایاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پوری قوم کی آنکھوں کا تارا ہیں، ماضی قریب میں میاں نواز شریف نے جب مزاحمت کا بیانیہ اپنایا تو وہ قوم کے بلا شرکت غیرے لیڈر بن کر سامنے آئے انہوں نے بے شمار کارہائے نمایاں بھی سرانجام دیے لیکن متعدد مرتبہ مزاحمت کے بحری بیڑے پر سوار ہو کر سویلین بالادستی کا پرچم لہراتے ہوئے اچانک ڈیل کی آبدوز میں بیٹھ کر سمندر کے دوسرے کنارے پر جا نکلتے تو پھر قوم کو مایوسی ہوتی رہی اور اسی مایوس قوم نے عمران خان کو اپنا رہبر اور اپنا رہنما چنا جس کا اظہار آٹھ فروری کے انتخابات میں بھی ہوا۔

پاکستان میں اس وقت غیر مقبول سیاسی حکومت ہے جس نے اپنا سارا بوجھ مقتدرہ کے کندھوں پر ڈال رکھا ہے  لیکن ''بنیان مرصوص''کے پیچھے کب تک ہماری معزز حکومت چھپتی رہے گی؟بلوچستان میں بدامنی، روپے کی گرتی ہوئی قدر، زر مبادلہ کے زخائر کی تشویش ناک حالت پاکستان میں امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال،مہنگائی میں ہوش ربااضافہ بجلی کے بلوں میں کمی کا اعلان کرنے کے باوجود کمر توڑ بل، اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں غیر ضروری اضافہ،بیڈ گورنس،موسمیاتی تبدیلی سمیت بے شمار ایسے مسائل ہیں جو حکومت کے سامنے ہیں۔

 اربوں روپے کے نئے قرض لے کر نیا بجٹ بنایا جا رہا ہے، آئی ایم ایف کی طرف سے سخت ترین شرائط کی وجہ سے پاکستانی قوم کو دور دور تک ریلیف کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے، آخر کب تک ہماری مقتدرہ اس غیر مقبول حکومت کے غیر دانشمندانہ اقدامات کا بوجھ اٹھائے گی۔

معروف وکیل رہنما فیصل چوہدری یہ کہہ چکے ہیں کہ اگرچہ بظاہر حکومت پر کوئی دباؤ نہیں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی اس وقت قدرے پرسکون کیفیت میں ہے لیکن اس کے باوجود آنے والے چیلنجز بھی ایک ایسی حقیقت ہیں جن سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ مقتدرہ اور عمران خان مل کر بیٹھیں،بھارتی جارحیت کے مقابلے میں قومی یکجہتی کی فضا برقرار رکھنے کے لیے خیر سگالی کے اقدامات کرنا ضروری ہیں، آخر کب تک سقراط زہر کے پیالے پیتے رہیں گے،کب تک بھٹو پھانسی پر جھولتے رہیں گے،کب تک بے نظیروں کے خون سے دھرتی رنگین ہوتی رہے گی،عمران خان پاکستان کے محب وطن لیڈر ہیں انکی جگہ پر انہیں بٹھانا پڑے گا دوسری طرف عمران خان کو بھی اپنی ٹیم نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگی۔

موجودہ قیادت جو وکلا پر مشتمل ہے اسکی نہ تو عوام میں جڑیں ہیں اور نہ ہی سیاست کا شعور ہے۔یہ بند کمروں کے سیاہ گلاب ہیں جو حقائق کی تیز دھوپ کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتے،حقیقی سیاسی قیادت ہی تحریک انصاف کا حسن ہے۔عمران خان کو معافی اور درگزر کا دروازہ کھولنا ہوگا، اگر وہ اپنے ساتھیوں کو معاف نہیں کرے گا تو قومی لیڈر کے طور پر کیسے کردار ادا کر سکے گا۔

عمران خان نے دوسال جیل میں رہ کر سود و زیاں کا حساب کر لیا ہے، جو شخص جیل میں نہیں ٹوٹ سکا اب اسے سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے، اسی میں قومی یکجہتی کی ضمانت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔