31 دسمبر ، 2020
حکومت نے 16 فروری کو نوازشریف کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن امیگریشن ماہرین کا کہنا ہے کہ نوازشریف کے پاس لندن میں قیام جاری رکھنے کے بہت سے طریقے ہیں جس کے تحت وہ پناہ کی درخواست دیے بغیر بھی لندن میں مقیم رہ سکتے ہیں اورکسی ملک کی شہریت نا ہونے کا دعویٰ بھی کرسکتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا پاسپورٹ موجودہ معیاد پوری ہونے پر ڈیڑھ ماہ بعد 16 فروری کو منسوخ کردیا جائے گا جب کہ اس کی تجدید نا کرنے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔
وزیرداخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ہم نے 16 فروری کو نوازشریف کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے بھی پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ پاسپورٹ کی معیاد ختم ہوجانے پر نوازشریف کا لندن میں قیام غیرقانونی ہوجائے گا، ان کے پاس واحد راستہ پاکستان واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرنا اور لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنا ہے۔
تاہم اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کی رائے اہمیت کی حامل ہوگی کیوں کہ انہوں نے برطانیہ میں قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اور وہ وہاں کے قوانین کو بھی بہتر سمجھتے ہیں۔
اس حوالے سے لندن کی امیگریشن لا فرم کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہوجانے یا حکومت کی جانب سے منسوخ کیے جانے پر ان کے پاس بہت سے راستے ہیں کہ وہ لندن میں قیام کرسکیں۔
دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لندن کی جی ایس سی سولیسیٹرز ایل ایل پی فرم کے امیگریشن سربراہ حاتم علی کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پاسپورٹ منسوخ ہونے کے باوجود پناہ کی درخواست دیے بغیر بھی لندن میں مقیم رہ سکتے ہیں، برطانیہ کا محکمہ داخلہ ایسے افراد کو جو میڈیکل ویزا پر وہاں ہوں، عموماً 18 ماہ تک علاج کروانے کی صورت میں وہاں رہائش کی اجازت دیتا ہے جب کہ نوازشریف اس سے زیادہ بھی وہاں قیام کرسکتے ہیں تاہم اس کا انحصار ان کے طریقہ علاج پر ہوگا۔
امیگریشن قوانین کے ماہر کا کہنا تھا کہ نوازشریف پناہ کی درخواست بھی دے سکتے ہی گو کہ بظاہر ایسا کرتے وہ نظر نہیں آرہے، اگر ان کی شہریت منسوخ ہوتی ہے تو وہ کسی ملک کی شہریت نا ہونے کا دعویٰ بھی کرسکتے ہیں تاہم ایسا اس صورت ہوگا جب حکومت پاکستان صرف ان کے پاسپورٹ کی تجدید سے انکار کردے نا کہ ان کی شہریت منسوخ کی جائے۔ ایسی صورت میں نوازشریف کو محکمہ داخلہ میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی شہریت منسوخ ہوچکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نوازشریف برطانیہ میں باقاعدہ رہائش کی درخواست دے دیں، چاہے وہ سرمایہ کار یا کسی بھی کاروبار یا ملازمت کے طور نئی ویزا کٹیگری میں دی جاسکتی ہے تاہم ایسی درخواست پر عموماً دیکھا جاتا ہے کہ ان پر دنیا میں کہیں فوجداری مقدمات تو قائم نہیں ہیں، یہ مسئلہ ہوسکتا ہے لیکن برطانوی حکام کو استثنائی اختیارات اس ضمن میں حاصل ہیں، خاص طور پر جب کہ نوازشریف کا برطانیہ میں ریکارڈ صاف ہے اور انہوں نے وہاں کوئی جرم نہیں کیا ہے۔
برطانیہ کا پاکستان سے جلاوطنی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے لہٰذا کسی بھی ممکنہ جلاوطنی کو اس میں ملوث افراد کی سیاسی سوچ کے مطابق دیکھا جائے گا۔