گیلانی سے سنجرانی تک

بات خفیہ کیمرے کی ہو یا خفیہ بیلٹ کی ہماری سیاست میں’ ’خفیہ‘‘ کردار موجود رہیں گے اور جب تک یہ ہیں نتائج کچھ ایسے ہی آئیں گے۔ جو کچھ 12مارچ کو ہوا کم وبیش وہی کچھ 3مارچ کو ہوا تھا لہٰذا سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اکثریت ہونے کے باوجود اسی طرح چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہارے جس طرح حفیظ شیخ ان سے ہارے تھے۔ 

اب نیوٹرل ایمپائز کا فیصلہ تو انہیں قبول کرنا پڑے گا۔ اس عجب الیکشن کی غضب کہانی کے کئی کردار ہیں مگر جناب صادق سنجرانی کے ساتھ یہ چمتکار  2018سے ہوتا آرہا ہے۔ کمال قسمت لے کر آئے ہیں۔ حکومت بھی جیت گئی اور ریاست بھی ہاری تو سیاست۔ سوچنا صرف یہ ہے کہ آگے کیا ہو گا۔ 26مارچ کو بغیر سوچے سمجھے لانگ مارچ کو نکل پڑے تو نتائج اس الیکشن سے مختلف نہیں ہونگے۔ اب نظر یہی آتا ہے کہ ’’خفیہ‘‘ کیمرے نصب کرنے والی تحقیقات بھی خفیہ رہیں گی۔

اہم سوال یہ ہے کہ یہ بازی پلٹی کیسے۔ وزیر اعظم عمران خان 3 مارچ کے نتائج سے بہت پریشان تھے۔ انہیں پورا یقین تھا کہ حفیظ شیخ جیت جائیں گے اس کے باوجود کہ خان صاحب کے سیکریٹ ویپن پرویز خٹک نے ان کو بتا دیا تھا کہ ہمارے کچھ لوگ بک چکے ہیں۔ کمال آدمی ہے یہ شخص بھی۔ خان صاحب کو اس پر اعتماد بھی ہے اور خوف بھی۔

شاید یہی وجہ تھی کہ 2013کے بعد 2018 میں بھی الیکشن جیتنے اور  نیا ریکارڈ بنانے کے باوجود دوبارہ وزیر اعلیٰ نہیں بنایا۔ وفاقی وزیر داخلہ بنانے کی یقین دہانی کرائی مگر ایک ایسی وزارت دے دی جہاں وزیر صرف اپنا دفاع کر سکتا ہے یعنی وزیر دفاع۔  اس سب کے باوجود عمران کو پتا ہے کہ ان کا اصل خفیہ ہتھیار  پرویز خٹک ہی ہے۔ 

پی پی پی کا سیاسی تجربہ رکھنے والے خٹک صاحب کو سنجرانی کو جتوانے کا ٹاسک سونپ دیا۔ یہ کہہ کر کہ جو گیلانی یا زرداری صاحب نے ہمارے ساتھ کیا وہ ا نکو بونس کے ساتھ واپس کر دو اور پھر ایسا ہی ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ الیکشن سے چند دن پہلے تحریک انصاف کے شہنشاہ جذبات جناب شبلی فراز نے ’’جیو‘‘ پر آکر انکشاف کر دیا کہ جو کھیل ہمارے ساتھ کھیلا گیا ہے وہی کھیل ہم کھیلیں گے۔ اب گیلانی صاحب کیا کرتے کہ پہلے ہی امپائر کو نیوٹرل کہہ چکے تھے اور پھر خود بھی تو ایسے ہی گول کیا تھا۔

اب آپ لوگ تلاش کرتے رہیں۔ تحریک انصاف کے 16ایم این اے اور PDM کے 8سینیٹرز کو جن کے ضمیر جاگے۔ اب اس کا اختتام کس طرح ہو گا اس کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ پریزائیڈنگ افسر کی تو بات چھوڑ دیں، موصوف 1992میں سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کی واضح اکثریت کے باوجود کیسے وزیر اعلیٰ بنے۔ ان سے بہتر اس منصب کےلئےموزوں شخص کون ہو سکتا تھا۔ 

مگر جن صاحب کو اپنی پوری سیاست پرغور کرنے کی ضرورت ہے وہ بس سابق صدر آصف علی زرداری ، سیاسی شطرنج کے ماہر بھی کبھی کبھی ہار جاتے ہیں۔ کیا گیلانی صاحب کو جتوانا اتنا ہی ضروری تھا۔ کیاماضی کی طرح اس بار بھی رضا ربانی پر اعتبار نہیں تھا۔

ہم تو چونکہ چیخ پکار کی سیاست اور صحافت کرتے ہیں مگر بحیثیت چیئرمین سینیٹ جو کام رضا ربانی نے کیے وہ ماضی میں کسی نے نہیں کیے۔ مگر پھر اپنے ہی قائد کے ہاتھوں رسوا ہوئے۔ اگرماضی میں زرداری صاحب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی بات مان لیتے تو ربانی بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے۔ حیرت ہے کہ اس بار بھی وہ زرداری صاحب کی سیاست پر پورا نہیں اترتے۔

رہ گئی بات وزیر اعظم عمران خان کی تو وہ شکست بھی کھا جائیں تو ہار آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ میچ ہوم گراؤنڈ پر ہو یا باہر انہیں لڑنا آتا ہے۔ اب تو خیرکرکٹ کی طرح سیاست میں انہیں بھی اندازہ ہو گیا ہے، خفیہ والوں کی اہمیت کا۔ اب ذرا سوچیں کہ اپوزیشن اگر اوپن بیلٹ کی حمایت کرتی تو ایک گیلانی نہ آتے مگر چیئرمین سینیٹ بھی مل جاتا اور مولانا غفور حیدری کے ساتھ دوبارہ یہ نہ ہوتا۔

اصل ہاتھ تو گیلانی صاحب کے ساتھ خود ان کے بیٹے علی حیدر گیلانی نے کیا، واقعی بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے چکر میں تخت بزدار ایک بار پھر مضبوط ہو گیا۔ بڑےتجزیہ کاروں نےوزیر اعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کی نوید سنائی مگر پہلے وزیر اعظم نے خود قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیااور پھر عثمان بزدار کو اپنے اعتماد کا ووٹ دیا۔ سیاست کو اور جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے اور خفیہ کرداروں کو بے نقاب کرنا ہے تو پہلے اپنے اپنے گھروں کی صفائی کریں۔

جو آج آپ کے ہاتھ بکا ہے وہ کل کسی اور کے ہاتھوں بکے گا۔ صرف الیکٹرول ریفارم نہیں جمہوری ریفارمز کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی اور جماعتوں میں بھی۔ جب گندےانڈے نہیں ہونگے تو نہ خفیہ والوں کا خوف ہو گا نہ خفیہ بیلٹ کا۔

عمران خان اب ایک سیاسی حقیقت ہے اور پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) یا پاکستان پیپلز پارٹی۔ کسی کو محض سلیکٹڈ کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ خان صاحب کو بھی اپنی سیاست پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ آپ کو اپنے مخالفین کو سیاسی مخالف کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے۔ گالم گلوچ ، چور ڈاکو کہنےکے بجائے یہ کام عدالتوں پر چھوڑ دیں تو بہتر ہے۔

تبدیلی لانی ہے تو سب سے بات کر کے ہی لا سکتےہیں۔ اب آپ کو تیس سال ہونےکوہیں۔ نہ سول ریفارم ہوئیں نہ پولیس اصلاحات، مہنگائی کا سونامی آ گیا مگر تبدیلی نہ آئی۔ کب تک آپ اپنی ساکھ کے بل بوتے پر گنڈے انڈے بچاتےرہیں گے۔ غور کریں کہ ضمنی الیکشن کیوں ہارے۔ اتحادی کیوں خوش نہیں۔ ہر کام خفیہ پر چھوڑیں گے تو معاملہ خفیہ ہی رہے گا اورکھیل تمام ہو جائے گا۔

مزید خبریں :