15 اپریل ، 2021
آپ کا زندگی میں ایسے لوگوں سے ضرور واسطہ پڑتا ہے جو زبردستی آپ کا اُستاد بننے کی کوشش کرتے ہیں اور استاد کے درجے پر خودبخود فائز ہونے کے بعد آپ سے عزت طلب کرتے ہیں۔ قسمت اچھی ہو تو زندگی میں ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جن کی شخصیت اور کردار سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
ایسے لوگ زبردستی آپ کا استاد بننے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ آپ خودبخود اُنہیں استاد کا درجہ دے دیتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئی اے رحمٰن بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنہیں میری نسل کے بہت سے صحافیوں نے خودبخود اپنا رول ماڈل بنا رکھا تھا۔ میں نے میدانِ صحافت میں قدم رکھا تو ضیاء الحق پاکستان میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔
یہ صحافت اور سیاست پر پابندیوں کا دور تھا۔ ہر کام میں زبردستی ہوتی تھی۔ زبردستی نمازیں پڑھانے اور اپنی عزت کرانے والے حکمرانوں کے اس دور میں نثار عثمانی، احمد بشیر، حسین نقی اور آئی اے رحمٰن جیسے لوگوں کو ہم نے اپنا استاد بنا لیا کیونکہ یہ لوگ آمر کے سامنے سچ بول اور لکھ رہے تھے۔
آئی اے رحمٰن صاحب کو پہلی دفعہ میں نے لارنس روڈ لاہور پر ہفت روزہ ’’ویو پوائنٹ‘‘ کے دفتر میں دیکھا۔ میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اپنے دوست آغا نوید مرحوم کے ساتھ وہاں ظفریاب احمد کو ملنے جایا کرتا۔ مظہر علی خان کے اس ہفت روزہ میگزین میں شفقت تنویر مرزا، حسین نقی اور آئی اے رحمٰن بھی کام کرتے تھے۔
ویو پوائنٹ میں سب لوگ بہت خاموشی سے اپنے کام میں منہمک رہتے لیکن یہاں کام کرنے والا ایوب دربدر ہمیں پورے شہر کی سیاسی خبریں سنا دیتا اور آخر میں یہ ضرور کہتا کہ ’’اوئے بچ کے رہنا پکڑے نہیں جانا‘‘۔
ایوب دربدر کے بار بار خبردار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مارچ 1981میں پی آئی اے کا طیارہ اغوا ہوا تو ویو پوائنٹ کا سارا عملہ گرفتار ہو گیا تھا۔ مظہر علی خان، آئی اے رحمٰن، حبیب جالب اور حمید اختر وغیرہ کو کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا۔ یہ سب لمبی قید کے بعد رہا ہوئے تو پھر سے ویو پوائنٹ نکالنا شروع کر دیا۔
جب ہم صحافی بنے تو ان سب بزرگوں کو بڑی رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے جنہوں نے مارشل لاء دور میں قید کاٹی اور کوڑے کھائے۔ 1988میں محترمہ بےنظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو آئی اے رحمٰن اپنے پرانے اخبار پاکستان ٹائمز میں واپس چلے گئے لیکن جب یہ حکومت ختم ہوئی تو عاصمہ جہانگیر انہیں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان میں لے آئیں۔ پھر رحمٰن صاحب نے اپنی زندگی انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کی خاطر وقف کر دی لیکن انگریزی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔
آئی اے رحمٰن صاحب کے ساتھ عقیدت اور لگاؤکی ایک وجہ حبیب جالب بھی تھے جو رحمٰن صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ جالب صاحب ایک ایسے انسان تھے جو بڑی مشکل سے کسی کی عزت پر آمادہ ہوتے تھے اور جب میں انہیں رحمٰن صاحب کے سامنے جھکا جھکا سا دیکھتا تو ان سے زیادہ جھک جاتا۔
رحمٰن صاحب کے ساتھ قربت میں اضافے کی بڑی وجہ عاصمہ جہانگیر بن گئی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی بہن حنا جیلانی اور کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر بڑے محدود وسائل کے ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان قائم کیا تھا۔
یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ آئی اے رحمٰن صاحب اگر صرف کالم لکھتے تو بہت فائدے میں رہتے کیونکہ بھارت اور بنگلہ دیش کے بڑے بڑے اخبارات منہ مانگے معاوضے پر ان کا کالم شائع کرنے کیلئے تیار تھے لیکن انہوں نے 1990سے 2015کے دوران ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان میں انتھک محنت کی اور لوگوں میں یہ شعور اجاگر کیا کہ ریاست اور اس کے شہریوں میں تعلق کو مضبوط بنانے میں انسانی حقوق کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔
پچھلے کچھ برسوں میں مجھے آئی اے رحمٰن صاحب کے ساتھ بہت سی کانفرنسوں اور سیمینارز میں گفتگو کا موقع ملا۔ میں ایک مرید کی طرح ان کی عزت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتا لیکن رحمٰن صاحب بڑی نفاست کے ساتھ تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری پیر پرستانہ گفتگو کو نظرانداز کر دیتے۔ وہ بہت بڑے آدمی تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں انجمن ہیں لیکن وہ انجمنِ ستائش باہمی کے قعطاً قائل نہ تھے۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے دوست تھے لیکن ان میں خودنمائی بالکل نظر نہ آتی تھی۔ ان کے ساتھ ادب، فلسفے اور سیاست پر گفتگو ہوتی تو ایسا لگتا کہ وہ ایک ماہر تیراک کی طرح آپ کو علم کے سمندر میں انڈر واٹر لے گئے ہیں اور سمندر کی گہرائیوں میں موجود ایک نئی دنیا دکھا رہے ہیں لیکن عام زندگی میں وہ عام الفاظ میں عام آدمی کے حقوق پر بات کرتے اور اپنی علمیت کا رعب بالکل نہیں جھاڑتے تھے۔ وہ صرف زبانی کلامی حقوق العباد کا پرچار نہیں کرتے تھے بلکہ عملی زندگی میں بھی بندوں کے حقوق کا خیال رکھتے۔
صحافت میں ہمارے پرانے استادوں نثار عثمانی اور حسین نقی کے ساتھ جیلوں کی ہوا کھانے والے ایوب دربدر کو ایک دفعہ نوکری کی ضرورت پڑی تو نقی صاحب نے انہیں آئی اے رحمٰن کے پاس بھیج دیا۔
رحمٰن صاحب نے ایوب دربدر کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دفتر میں ریسیپشنسٹ کی جاب آفر کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ کی تنخواہ زیادہ نہیں ہو گی۔ ایوب صاحب نے یہ جاب قبول کر لی لیکن رحمٰن صاحب بعد میں بغیر کسی تقاضے کے اپنی طرف سے تنخواہ میں کمی کو پورا کرتے رہتے تھے۔ کچھ اور مثالیں بھی دے سکتا ہوں لیکن ایک ہی مثال کافی ہے کیونکہ اس کے راوی خود ایوب دربدر ہیں جو بدستور وہیں کام کر رہے ہیں جہاں رحمٰن صاحب انہیں چھوڑ کر گئے۔
ایک دفعہ میں نے آئی اے رحمٰن صاحب سے پوچھا کہ نوجوان صحافیوں کو کون سی کتاب ضرور پڑھی چاہئے؟ رحمٰن صاحب نے کہا کہ ملک محمد جعفر کی کتاب JINNAH AS A PARLIAMENTARIAN ہر صحافی اور سیاسی کارکن کو پڑھنی چاہئے۔
یہ جواب سن کر میں رحمٰن صاحب کی عاجزی پر حیران رہ گیا کیونکہ یہ کتاب میرے پاس موجود تھی اور اسے مرتب کرنے والوں میں ملک محمد جعفر کے علاوہ آئی اے رحمٰن اور غنی جعفر کا نام بھی کتاب کے ٹائٹل پر موجود ہے لیکن رحمٰن صاحب نے صرف ملک محمد جعفر کا نام لیا کیونکہ وہ ذاتی طور پر انہیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔ رحمٰن صاحب کیلئے قائداعظم محمد علی جناح ایک آئیڈیل تھے اور اسی لئے وہ تمام عمر جمہوریت اور انسانی حقوق کی جنگ میں مصروف رہے۔
بقول حارث خلیق انہیں اپنے اہلِ زبان پر ہونے پر نہیں اہلِ آواز ہونے پر فخر تھا۔ وہ بےآوازوں کی آواز تھے۔ ان کے چلے جانے کے بعد ہمیں ان سب مظلوموں کی آواز بننا ہے جن کی آواز انصاف کے ایوانوں تک بڑی مشکل سے پہنچتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔