06 مئی ، 2021
وزیراعظم عمران خان کو انتخابی اصلاحات کی اتنی کیا جلدی ہے؟ پچھلے دنوں انہوں نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دی۔ اپوزیشن نے حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیا اور یہ منطق پیش کی کہ ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔
بات ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دو آرڈی نینسوں کی منظوری دیدی گئی۔ ایک آرڈی نینس کے تحت الیکشن کمیشن آئندہ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کر سکے گا اور دوسرے آرڈی نینس کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل جائے گا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ طے کیا جاتا؟
آرڈیننس کے مسودوں کی منظوری نے افواہوں اور چہ میگوئیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کچھ لوگ اپنے باوثوق ذرائع سے دعوے کر رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن جماعتوں کے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھانے کیلئے خود ہی اسمبلیاں توڑ دیں گے اور وقت سے پہلے انتخابات کرا دیں گے۔ اگر ان خبروں کو درست تسلیم کر لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے، اُن میں حکمران جماعت کو زیادہ تر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
عمران خان کی حکومت انتہائی غیرمقبول ہے تو پھر وہ خود قبل از وقت انتخابات کیوں کرانا چاہتے ہیں؟ عام خیال یہ ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہو گا تو کیا عمران خان نئے انتخابات کی افواہوں سے کسی کو ڈرا رہے ہیں یا واقعی ان کو یقین ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات سے وہ کوئی فائدہ اٹھا لیں گے؟ اپوزیشن کی قیادت میں اختلافات دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
میڈیا میں جتنا اختلاف نظر آ رہا ہے حقیقت میں اس کی نوعیت بہت سنگین ہے کیونکہ اندر سے ان سب کو پتہ ہے کہ میڈیا میں یہ جن قوتوں کو اشاروں کنایوں میں برا بھلا کہتے رہتے ہیں، ان سے سب کی خفیہ میل ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف حکمران جماعت میں بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں اور پنجاب میں تحریک انصاف کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی میں موجود بےچینی سب کو نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت بھی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن نئے انتخابات کا زیادہ فائدہ اپوزیشن ہی اٹھائے گی۔ کیا عمران خان قبل از وقت انتخابات کے ذریعہ خود اقتدار پلیٹ میں رکھ کر اپوزیشن کو پیش کرنا چاہتے ہیں؟
عمران خان کی کابینہ میں موجود کچھ وزراء کو یقین ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تیزی سے زوال پذیر معیشت ہے اور اس معیشت کو اگلے دو سال میں سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات میں اپوزیشن اکثریت حاصل کر سکتی ہے لیکن تین سال کی حکومت کے تجربے نے انہیں آپس میں یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر شہباز شریف یا بلاول بھٹو زرداری مل کر بھی حکومت بنا لیں تو ایک سال بھی نہ چل سکیں گے۔
پہلے تو آپس میں لڑیں گے اور پھر اداروں سے لڑ جھگڑ کر ایک دفعہ پھر ہمارا راستہ ہموار کر دیں گے۔ یہ وہ سوچ ہے جو عمران خان کے ارد گرد موجود کچھ افراد کے ذہن میں ہے۔ ان کا خیال ہے خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان نے کچھ اہم فیصلے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلے آنے والی حکومت کو کرنے پڑیں گے تو لوگ ہمیں یاد کریں گے۔ بظاہر تو یہ بڑی شاطرانہ سوچ ہے لیکن اس سوچ کے پیچھے سیاسی فہم و فراست نظر نہیں آتی۔ ملکی مسائل کے حل کیلئے حکومت چلانے کا انداز بدلنے کی بجائے حکومت چھوڑ کر بھاگنے کی تیاری نظر آتی ہے۔
عمران خان نے حال ہی میں کہا ہے کہ این اے 249کے ضمنی الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں، پاکستان میں 1970کے الیکشن کے سوا ہر الیکشن میں دھاندلی ہوئی لہٰذا ہم دھاندلی کا راستہ روکنے کیلئے انتخابی اصلاحات کیلئے پُرعزم ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ این اے 249میں پیپلز پارٹی دھاندلی کا شور نہیں مچا رہی بلکہ دھاندلی کا الزام لگانے والوں کو جمہوریت کا دشمن قرار دے رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ 1970کا الیکشن فری اینڈ فیئر نہیں تھا اور اس کی گواہی وہ لوگ دے چکے ہیں جو اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان کے ساتھ کام کرتے رہے۔
گلوکار عدنان سمیع کے والد ارشد سمیع خان نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام کیا ۔وہ ایئر فورس میں اسکواڈرن لیڈر تھے اور یحییٰ خان کے اے ڈی سی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب THREE PRESIDENTS AND AN AIDE میں 1970کے الیکشن کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ انتخابات اکتوبر 1970میں ہونا تھے لیکن چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار نے ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر انتخابات دسمبر 1970میں کرائے جس کا فائدہ شیخ مجیب کو ہوا۔
7 دسمبر کے دن یحییٰ خان نے راولپنڈی میں سائیکل کے نشان پر مہر لگائی جو مسلم لیگ کا نشان تھا۔ رات کو پی ٹی وی پر رزلٹ آنے شروع ہوئے تو یحییٰ خان نے ارشد سمیع سے کہا کہ میجر جنرل عمر کو کال ملائو۔ جنرل عمر لائن پر آئے تو یحییٰ نے کہا عمر تمہارے اندازے کدھر گئے؟ وہ جو خان قیوم خان اور بھاشانی کو پیسے دیے تھے وہ کدھر گئے؟ عمر خاموش رہے، یحییٰ خان نے حکم دیا اب صوبائی اسمبلی کے الیکشن ایک ہفتے بعد ہوں گے میں کوئی فیئر اینڈ فری نہیں جانتا اگلا رزلٹ مختلف آنا چاہئے۔ جنرل عمر نے یس سر تو کہہ دیا لیکن کچھ نہ کر سکے۔
آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی بریگیڈیئر اے آر صدیقی نے یحییٰ پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ خان قیوم کی کنونشن مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے علاوہ مشرقی پاکستان میں عبدالصبور خان، فضل الحق چودھری، نور الامین، خواجہ خیر الدین اور مولوی فرید الدین سمیت کئی دیگر کو ایک کرنل ایس ڈی احمد کے ذریعہ رقوم دی گئیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ خفیہ اداروں کے اندازے بعد میں بھی غلط ثابت ہوتے رہے۔
شاہد حامد نے اپنی کتاب TREASURED MEMORIESمیں لکھا ہے کہ جب وہ صدر فاروق لغاری اور وزیراعظم معراج خالد کے ساتھ بطور وزیر دفاع کام کر رہے تھے تو ایک دن آئی ایس آئی کے سربراہ نسیم رانا نے ہمیں بریفنگ میں کہا کہ الیکشن میں مسلم لیگ ن نوے سے سو اور پیپلز پارٹی پچاس سے ساٹھ نشستیں لے گی باقی نشستیں آزاد امیدوار اور چھوٹی جماعتیں لیں گی۔1997کے الیکشن کا رزلٹ آیا تو مسلم لیگ ن نے 137اور پیپلز پارٹی نے 18نشستیں جیتیں۔
انتخابات میں دھاندلی روکنے کیلئے اصلاحات ضرور کریں لیکن اصل مسئلہ الیکشن ڈے پر ہونے والی دھاندلی نہیں ہے اصل مسئلہ الیکشن سے پہلے ہونے والا جوڑ توڑ ہے اس جوڑ توڑ میں غیرسیاسی قوتوں کا کردار ختم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کردار کسی آرڈی نینس سے ختم نہیں ہو گا۔ فی الحال عمران خان اس کردار کو ختم نہیں کرنا چاہتے وہ اپوزیشن کو حکومت میں لاکر ذلیل وخوار کرنا زیادہ پسند کریں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔