05 اکتوبر ، 2012
اسلام آباد… وفاقی وزیر قانون فاروقی ایچ نائیک آج عدالت عظمیٰ کے ججوں کو ایک ایسے خط کے مسودے پرقائل کرنے کی بھرپورکوشش کریں گے ، جس میں سوئس حکام سے کارروائی میں ریاست پاکستان کی سول پارٹی کی حیثیت بحال کرنے کی درخواست نہیں کی جائے گی،سپریم کورٹ کے ججوں کے اس پر آمادہ نہ ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی اجلاس میں عدلیہ کے خلاف بھرپور مہم چلائے گی،حکومت کے ایک قریبی ذریعہ نے رابطہ کرنے پر اس تاثرکی تردید کی ، اس کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کا عدلیہ کے خلاف مہم شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، پیپلز پارٹی نے گزشتہ کئی برسوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے والی جماعت ہے، پیپلز پارٹی چاہتی ہے، تمام ملکی امور آئین کے مطابق چلائے جائیں۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ کیسز میں پاکستان کی سول پارٹی کی حیثیت سے بحالی کی درخواست کا سوئس حکام کے نام خط میں ذکر فاروق ایچ نائیک کی قیادت میں قانونی ٹیم کے لیے اصل آزمائش بن گیا ہے، کیونکہ پاکستان نے سول پارٹی کی حیثیت ختم کرکے تمام دستاویزی شہادتوں سے دستبردار ہوگیا ہے ، سن2003، اکتوبر 2007 اور مارچ 2008 میں سوئس مجسٹریٹس اورعدالتوں کی تفتیش اور فیصلے اسی شہادت کی بنیاد پر کیے گئے تھے ، چوہدری اعتزاز احسن نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے توہین عدالت کیس میں موقف اختیار کیا تھا کہ جون 2008ء میں سوئس مجسٹریٹ نے مذکورہ مقدمات این آر اوکی بنیاد پر نہیں بلکہ شہادتوں کی عدم دستیابی پربند کیے تھے، بعد ازاں انکشاف ہوا تھا کہ سوئس عدالت کی جانب سے شہادت نہ ہونے کی تحریر کا مطلب تھا کہ ریاست پاکستان بحیثیت سول پارٹی کارروائی سے دستبردار ہوگیا ہے، گو کہ پیپلز پارٹی کے اکثر رہنما اصل حکمت عملی سے ناواقف ہیں، فاروق نائیک بھی میڈیا سے چھپے ہوئے ہیں، لیکن اس کے باوجود بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ کوئی ناموافق فیصلہ پارلیمنٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، قانونی ماہرین اس بات پر واضح ہیں، اس بات کا کھل کر ذکرکیے بغیر کہ پاکستان سول پارٹی کی حیثیت کی بحالی کے لیے درخواست گزار ہے، اس سے بات نہیں بنے گی وہ اس نکتے پر بھی صاف ہیں کہ تمام بحالیوں کی واضح درخواست کے بغیر کوئی ایسا خط تاریخی این آر او فیصلے کے خلاف ہوگا، سینئر آئینی و قانونی ماہر جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا موقف ہے کہ این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر آفیشل سفارتی ذرائع کے ذریعہ سوئس حکام سے رابطہ تمام مسائل حل کردے گا، کیونکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں ملک قیوم کے خط کے غیر قانونی ہونے کی نہ صرف وضاحت کردی گئی ہے بلکہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے بھی کہا گیا ہے۔