14 جون ، 2021
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریلوے اراضی کیس میں ریمارکس دیے کہ ریلوے حادثے کے بعد پریس کانفرنسز دیکھیں لگا کہ وزیر اورسیکرٹری استعفیٰ دیں گے مگر نہیں دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی سرکلر ریلوے کی زمین پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت میں چیئرمین ریلوے اور دیگر حکام پیش ہوئے۔
اس دوران ریلوے کے وکیل کا کہنا تھاکہ سکھر سے کراچی تک ریلوے کا 82 فیصد ٹریک خراب ہے، وزیر ریلوے کو کہتے ہیں کہ بنائیں تو کہتے ہیں ایم ایل ون بنے گا تو دیکھیں گے، ایم ایل ون بنانے میں 9 سال لگ جائیں گے۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ یہ لوگ صرف لوگوں کو مروارہے ہیں، ریلوے حادثے کے بعد پریس کانفرنسز دیکھیں لگا کہ وزیر اورسیکرٹری استعفیٰ دیں گے مگر نہیں دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریلوےحادثے کے بعد جاں بحق افرادکو 15 ،15لاکھ معاوضےکا اعلان کردیتے ہیں بس، لوگوں کو آپ کے 15 لاکھ نہیں چاہیے ان کو ان کے والد، والدہ، بھائی چاہیئیں۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں کی سواری تباہ ہو گئی ہے، صرف غریب ہی کو نقصان ہو رہا ہے، بڑے لوگوں کو کچھ نہیں ہو رہا، کالا پل پر ریلوے اراضی ہے اس پر پارک بنانے کا حکم دیا، پارک آج تک نہیں بنایا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ ریلوے پر وزیراعظم سے بات کریں، یہ وفاقی حکومت کے دائرے میں آتا ہے۔
عدالت نے کالا پل ریلوے اراضی پر پارک بنانے کے اقدامات کا حکم دے دیا۔
عدالت نے حکم لکھوایا کہ ریلوے کا سفر خطرے سے کم نہیں ہے، اس کا سفر لوگوں کیلئے خطرناک بن گیا ہے، وزیر ریلوے نے کہا کہ استعفیٰ دینے سے اگر لوگ واپس ہوسکتے ہیں تو وہ تیار ہے یہ انتہائی تشویشناک ہے۔
عدالت نے کہا کہ ریلوے حکام کی کارکردگی ناقص ہے، وزیر اعظم اس معاملے کو خو دیکھیں، عدالت نے ریلوے زمین لیز کرنے یا فروخت کرنے کو غیر قانونی قرار دیا اور کہاکہ ریلوے زمین صرف ریلوے مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتی ہے۔
عدالت نے 16 جون کو تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔