28 اگست ، 2021
افغان طالبان کو دنیا کے امیر ترین باغی گروہوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ طالبان کا ذریعہ آمدن کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے طالبان کی آمدنی کے ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں طالبان کے آمدن کے مختلف ذرائع بتائے گئے ہیں۔
طالبان کتنے مالدار ہیں؟
امریکی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران کئی ہزار طالبان ہلاک ہوئے اور افغان جنگجوؤں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا لیکن اس کے باوجود طالبان نے امریکا اور اس کی اتحادی فورسز کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے اس تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے طالبان کی آمدنی کے ذرائع معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2017 تک طالبان کی سالانہ آمدنی 400 ملین امریکی ڈالر تھی لیکن 2018 کے اختتام میں یہ 1.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔
رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی آمدن کے 4 ذرائع ہیں۔
غیر ملکی فنڈنگ
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان اور امریکی حکام پاکستان سمیت ایران اور روس پر طالبان کی مالی معاونت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں تاہم تینوں ممالک نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا لیکن اس کے باوجود پاکستان اور خلیجی ممالک کے رہائشیوں کو طالبان کی مالی مدد کرنے والے اہم شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔
غیر ملکی ماہرین کے مطابق طالبان کو افغانستان سے باہر سے تقریباً 500 ملین ڈالر کی سالانہ امداد ملتی ہے جب کہ امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ 2008 میں افغان طالبان نے خلیجی ممالک سے 106 ملین ڈالر کی رقم وصول کی تھی۔
منشیات کی تجارت
افغانستان افیون کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور طالبان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے وہ افیون کے کاروبار سے بھی بڑی رقم حاصل کرتے رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق افغانستان سے سالانہ بنیاد پر تقریباً 1.5 سے 3 ارب امریکی ڈالر مالیت کی افیون بیرون ملک بر آمد کی جاتی ہے۔
اس ضمن میں سابق امریکی کمانڈر نے 2018 میں کہا تھا کہ طالبان کی سالانہ مجموعی آمدنی میں غیر قانونی منشیات فروخت کرنے سے حاصل کی گئی کمائی کا 60 فیصد ہے جب کہ کچھ ماہرین اِن اعداد و شمار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
طالبان نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں کچھ عرصے کے لیے منشیات کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی جس پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں اور اس بار بھی طالبان حکومت بنانے سے قبل اعلان کر چکے ہیں کہ ہم افغانستان سے منشیات پاک کر دیں گے۔
علاقوں کے کنٹرول میں توسیع
رپورٹ کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے افغان تاجروں کو ان کے زیر کنٹرول علاقے میں آکر تعمیراتی سامان اور پیٹرولیم مصنوعات کی خریدو فروخت کے لیے ٹیکس ادا کرنے پر قائل کیا جاتا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ دو دہائیوں میں مغربی ممالک کی افغانستان میں تعمیراتی و ترقی کے لیے دی گئی رقم کو بھی اپنی جیبوں میں ڈالا تھا جب کہ ملک میں مغربی امداد سے قائم کردہ اسکولز، سڑکیں اور دیگر تعمیراتی پراجیکٹس پر بھی طالبان نے ٹیکس لاگو کر دیا تھا۔
بی بی سی کے مطابق 2018 میں افغانستان کی سب سے بڑی الیکٹرک کمپنی کے سربراہ نے بتایا کہ طالبان ملک کے بیشتر حصوں میں بِجلی فراہم کر نے کی آڑ میں شہریوں سے سالانہ 20 لاکھ امریکی ڈالر وصول کرتے تھے۔
قیمتی معدنیات
افغانستان معدنیات اور قیمتی پتھروں سے مالا مال ملک ہے لیکن خطے میں تنازعات کے نتیجے میں اس کا بیشتر حصہ استحصال کا شکار رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغان حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں کان کنی کی صنعت کا سالانہ تخمیہ ایک ارب امریکی ڈالر ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان ملک کی کانوں پر قابض ہو گئے تھے جس کے ذریعے انہوں نے قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے رقم بنائی۔
اقوام متحدہ کی 2014 میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طالبان نے افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں 25 سے 30 غیر قانونی کانوں سے سالانہ 10 ملین امریکی ڈالر کمائے۔