دنیا
Time 20 ستمبر ، 2021

ایرانی جوہری پروگرام کے نئے سربراہ کا امریکا سے پابندیاں ہٹانےکا مطالبہ

ایرانی حکومت بامعنی مذاکرات چاہتی ہے جس سے ایرانی قوم پر عائد ناجائز پابندیاں ہٹائی جاسکیں، محمد اسلامی،فوٹو: اے پی
 ایرانی حکومت بامعنی مذاکرات چاہتی ہے جس سے ایرانی قوم پر عائد ناجائز پابندیاں ہٹائی جاسکیں، محمد اسلامی،فوٹو: اے پی

ایران کے جوہری پروگرام کے نئے سربراہ محمد اسلامی نے امریکا پر زور دیا ہےکہ وہ اپنی غلط پالیسیوں کو درست کرے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق  آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارےعالمی جوہری توانائی ایجنسی(آئی اے ای اے) کی سالانہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے محمد اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکا اپنی غلط پالیسیوں کو درست کرتے ہوئے پابندیاں ختم کرے۔

خیال رہے کہ نئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے پر عملدرآمد کے لیے رواں سال شروع ہونے والے مذاکرات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔  

ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ محمد اسلامی کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت بامعنی مذاکرات چاہتی ہے جس سے ایرانی قوم پر عائد ناجائز پابندیاں ہٹائی جاسکیں۔

 محمد اسلامی کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اپنی پالیسیاں درست کرتے ہوئے ایران پر عائد  تمام پابندیوں کو عملی  اور مؤثر طور پر ختم کرے۔

خیال رہےکہ امریکا کی جانب سے 2018 میں جوہری معاہدہ ختم کرنے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد ایران نے 2019 میں جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

رواں  سال کے آغاز میں معاہدے میں شامل دیگر ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس سمیت بالواسطہ طور  پر امریکا سے مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تھے، ان مذاکرات کا مقصد امریکا کو واپس معاہدے میں شامل کرانا ہے تاکہ ایران پر پابندیاں ختم ہو سکیں اور  ایران اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ محدود کرسکے۔

جوہری معاہدے میں کیا طے ہوا تھا؟

خیال رہے کہ جولائی 2015 میں یورپی یونین سمیت 6 عالمی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے ’جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن‘ کے تحت ایران نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ جوہری ری ایکٹر میں بطور ایندھن استعمال ہونے اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے افزودہ شدہ یورینیم کے ذخائر کو 15 سال کے لیے محدود کرے گا جبکہ یورینیم افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے سینٹری فیوجز کی تعداد کو 10 سال کے عرصے میں بتدریج کم کرے گا۔

شرائط کو قبول کرنے کے بدلے اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں عہدہ سنبھالتے ہی ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو تباہ کن اور پاگل پن قرار دینا شروع کردیا تھا اور 2018 میں معاہدے سے بالآخر علیحدگی اختیار کرلی تھی جس پر عالمی برادری نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران ریاستی دہشت گردی کی سر پرستی کرتا ہے، حقیقت میں اس معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت مل گئی اور معاہدے کے بعد ایران نے خراب معاشی صورتحال کے باوجود اپنے دفاعی بجٹ میں 40 فیصد اضافہ کیا ہے۔

دوسری جانب ایران ہمیشہ سے اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری معاہدے پر عمل پیرا ہے جس کی تصدیق عالمی جوہری توانائی ایجنسی بھی کرتی ہے۔

مزید خبریں :