اختیارات کا بے رحمانہ استعمال

گورنر جنرل ملک غلام محمد جس کی ملی بھگت سے لاہور شہر مارشل لا کے شکنجے میں آ چکا تھا اور ختمِ نبوت کے نام پر لاقانونیت کی طرف مائل جتھے گولیوں کی زد میں آ رہے تھے۔ اِس صورتِ حال کے خلاف امیر جماعتِ اسلامی جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی کے انتہائی سخت بیان کے سوا کوئی ہمہ گیر سیاسی ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا اور یوں نوکر شاہی کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ 

گورنر جنرل نے ایک اور جست لگائی اور تمام تر آئینی تقاضے اور پارلیمانی روایات بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین اور اُن کی کابینہ برطرف کر ڈالی جس سے سیاسی حلقوں پر ایک سناٹا سا چھا گیا۔ خواجہ صاحب مسلم لیگ کے صدر بھی تھے جس کی قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت تھی، چنانچہ اُنہوں نے مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس طلب کیا جس میں گنتی کے چند ممبر شریک ہوئے۔

 زیادہ تر ارکان نئے وزیرِاعظم جناب محمد علی بوگرا کی حمایت میں بیان دے رہے تھے جنہیں گورنر جنرل نے ایک وزیرِاعظم کے سیاسی قتل کے بعد تعینات کیا تھا۔ حکمران سیاسی جماعت میں ڈسپلن کے فقدان سے بیوروکریسی بےلگام ہوتی گئی اور آئین سازی میں طرح طرح کی رکاوٹیں در آئیں۔

دستور ساز اسمبلی میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمائندے اُس وقت دو بڑے مسائل سے دوچار تھے۔ ایک یہ کہ مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ جبکہ مغربی پاکستان کا رقبہ اور اِنفراسٹرکچر بہت وسیع تھا۔ اِس تفاوت کے سبب دستور کی تدوین میں توازن پیدا کرنا دشوارہو رہا تھا۔ 

دوسرا حساس مسئلہ صوبائی خودمختاری کا تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگ زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری کے حق میں تھے جبکہ مغربی پاکستان کے مقتدر طبقے ایک مضبوط مرکز کے حامی تھے۔ ایک اختلاف یہ بھی تھا کہ مغربی پاکستان میں جداگانہ انتخابات کی حمایت شدید تھی، لیکن مشرقی پاکستان میں مخلوط انتخابات کے حق میں ہوا چل رہی تھی۔ 

دریں اثنا وزیرِاعظم لیاقت علی خاں شہید کر دیے گئے۔ اُن کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیرِاعظم بنے جو اِنتہائی شریف النفس اور دِین دار شخص تھے جبکہ پنجاب کے طاقت ور وَزیرِاعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ یہ سمجھتے تھے۔

ایک سال بعد یعنی 1954 میں مشرقی پاکستان میں بہت بڑی سیاسی تبدیلی آئی۔ وہاں انتخابات میں جگتو فرنٹ کے ہاتھوں حکمران جماعت مسلم لیگ بری طرح شکست کھا گئی اور اُسے صرف 9 نشستیں ملیں اور یوں وُہ پارلیمانی پارٹی بننے کی پوزیشن میں بھی نہیں آئی جبکہ 300 کے ایوان میں اقلیتوں کی 72 نشستیں تھیں اور اِیوان کا توازن اُن کے ہاتھ میں چلا گیا۔ تب آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے جناب فضل القادر چودھری نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر کے اُسے پارلیمانی پارٹی کا درجہ دلانے میں اہم کردار اَدا کیا۔ 

جگتو فرنٹ نے مکمل صوبائی خودمختاری کے نعرے سے عوام کے اندر شدید ہیجان پیدا کر دِیا تھا اور یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھا کہ دستور ساز اسمبلی تحلیل کر دی جائے، کیونکہ وہ مشرقی پاکستان کا اعتماد کھو بیٹھی ہے۔ اِس نازک موقع پر وزیرِاعظم محمد علی بوگرا اِس موقف پہ ڈٹ گئے کہ دستور ساز اسمبلی ایک خودمختار اِدارہ ہے جسے ’آزادیِ ہند ایکٹ‘ کے تحت اُس کے پہلے چیئرمین قائدِاعظم محمد علی جناح کو اقتدارِ اَعلیٰ منتقل کیا گیا تھا۔ اُس کی اہم ترین ذمےداری پاکستان کا دستور تیار کرنا اور قوانین کی منظوری دینا تھی۔ 

اِس تناظر میں اسے دستور سازی کا فریضہ مکمل ہونے تک تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کا محکم استدلال آخرکار غالب آیا۔ خوش قسمتی سے 20 ستمبر 1954 کے اجلاس میں اُس نے بنیادی اصولوں کی رپورٹ اور دَستور کا پورا ڈھانچہ منظور کر کے ڈرافٹنگ کا نازک کام قانونی ماہرین کے سپرد کر دیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ قائدِاعظم کے یومِ ولادت کی نسبت سے آئین 25 دسمبر 1954 کو نافذ ہو جائے گا۔ 

اِسی اجلاس میں بنیادی ایشو کے دو بِل بھی منظور ہوئے جو دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین جناب مولوی تمیز الدین خان کے دستخطوں کے بعد ایکٹ بن گئے۔ قائدِاعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے یہی روایت قائم کی تھی۔ ایک ایکٹ کے ذریعے گورنر جنرل کے وزیرِاعظم یا وزیر کی برطرفی کے اختیارات سلب کر لیے گئے تھے، جبکہ دوسرے ایکٹ نے اعلیٰ عدالتوں کو رِٹ جاری کرنے کے اختیارات تفویض کر دیے تھے۔ یہ دونوں بل بڑی رواداری میں منظور کیے گئے تھے۔

 اِس تحریک میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارکان بہت زیادہ پُرجوش تھے، کیونکہ وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین کی غیرآئینی برطرفی نے اُنہیں بہت مشتعل کر دیا تھا کہ گورنر جنرل اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے تمام آئینی حدود پھلانگتے جا رہے ہیں۔ اُس وقت گورنر جنرل ملک غلام محمد ایبٹ آباد میں تھے اور کراچی واپس آتے ہی اُنہوں نے 24؍اکتوبر 1954 کی شام جوابی حملے میں دستور ساز اسمبلی ہی تحلیل کر ڈالی، پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور نئی کابینہ میں کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خاں اور میجرجنرل اسکندر مرزا شامل کر لیے۔ کراچی پر ہُو کا عالم طاری تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کرفیو نافذ ہو۔ مسلح فوجی دستے پورے شہر میں گشت کر رہے تھے۔

بعدازاں اختیارات کے بےرحمانہ استعمال کے ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے گئے جو آگے چل کر سانحۂ مشرقی پاکستان کی صورت میں نمودار ہوئے۔ مغربی پاکستان کے وڈیروں اور نوکر شاہی کے پے در پے غیرقانونی اور غیرجمہوری اقدامات سے مشرقی پاکستان کے خواص و عوام کے اندر یہ احساس راسخ ہوتا گیا کہ وہ اَیک آزاد رِیاست کے شہری کے بجائے مغربی پاکستان کے جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور جرنیلوں کے غلام بن کے رہ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے یہی احساس باقی ماندہ پاکستان کے عوام کی نفسیات میں اترتا جا رہا ہے، کیونکہ حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا بلکہ اُس میں مزید بگاڑ پیدا ہو چکا ہے جس کی اَنہونے واقعات گواہی دے رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔