بلاگ

کرپشن: ’’ٹرانسپیرنسی انڈیکس‘‘، حقیقت نہیں تاثر!

حکومتی نظام میں میرٹ سے ہٹ کر کنبہ پروری، اختیارات کا خلاف آئین و قانون استعمال، قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرکے فیصلہ سازی، کسی بھی ریاست میں گورننس کے بڑے امراض ہوتے ہیں۔ مالی کرپشن ان سب کی ماں ہے، جس کے ارتکاب کے لیے گورننس کو متذکرہ سب امراض میں مبتلا کرنا مالی کرپشن کے عوام دشمن جرم کا لازمہ ہوتا ہے۔ 

گویا بدتر حکمرانی کے بڑے فیصد کی وجہ کسی بھی سطح پر کتنی ہی مالی کرپشن ہی ہوتی ہے، دنیا کے چند ہی ممالک عوامی خزانے کی چوری ڈاکے کی اس لعنت سے، جسے عرف عام میں کرپشن یا وائٹ کالر کرائم کہا جاتا ہے،محفوظ ہیں۔ہاں اس کا درجہ اپنا اپنا ہے۔

 ترقی یافتہ ممالک میں تو انسداد کرپشن کی سخت قانون سازی اور اس پر عملدرآمد نے ایٹ لارج عوامی خزانے کےساتھ اس کھلواڑ پر قابوپایا ہوا ہے۔ ہو جائے تو میڈیا سے شور مچتا ہے، پکڑ اور سزا ہو جاتی ہے۔ کرپشن فری اور کڑا احتساب بذریعہ قانون و عمل، ہر ریاست کو مطلوب گڈگورننس کے بڑے اشاریے ہیں۔

 ترقی پذیر ممالک میں کمزور اقتصادی صورتحال، قانون پر عملدرآمد کی مایوس کن صورتحال اور معیاری قانون سازی کی سستی یا اس سے دانستہ اجتناب نے ان کی گورننس کو سست و لاغر بنایا ہوا ہے۔ گویا بے قابو مالی کرپشن، ان ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ سب سے زیادہ کرپشن جاری ترقیاتی پروجیکٹس یا ان کے نام پر ہی ہوتی ہے۔

 ایسے ممالک میں عوامی غربت، کم علمی اور بیمار سماجی رویوں کے باعث، ایک تو یہ ممالک احتساب کے فعال نظام کی قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کی صلاحیت سے محروم ہیں اور دوسرے یہ کہ محدود صلاحیت ہو تو یہ بھی کرپٹ کر دیتی ہے، جس سے مطلوب ’’مانیٹرنگ اور ایکشن‘‘ کی فکرسے آزاد بیڈ اور آلودہ گورننس اپنے جمود میں کھلی کرپشن کے لیے دیدہ دلیری کی بڑی جگہ بنا لیتی ہے۔

 جن ترقی پذیر ممالک میں صحافتی آزادی اس درجے پر ہوتی ہے کہ واضح نظر آتی کرپشن کو کچھ بنیادی حقائق پر مبنی ثبوتوں کے ساتھ کم از کم بے نقاب کردیا جائے، وہاں کرپشن کے ناجائز فوائد کو انتظامیہ کی نچلی سطح اور حکمران جماعتوں میں کارکنوں تک باٹنے کا اہتمام کمال فن کاری اور سیاسی گھاگ پن سے کیا جاتا ہے اور جرم کے ارتکاب سے قبل ہر سوراخ بند کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ یوں کرپشن عوام میں بھی قابل قبول و ہضم ہو جاتی ہے، لیکن عوامی مفادات و قومی خزانے کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہوتا ہے اور جس طرح عام لوگ اس کے خسارے میں رہتے ہیں، اس پر سیاسی ابلاغ کم سے کم ہوتا ہے اور عوام بے خبر و بے نیاز۔

گزشتہ دو عشرے میں انسداد کرپشن کے حوالے سے عالمی سطح پر بڑی مثبت پیش رفت یہ ہوئی کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا انقلاب برپا ہونے سے کرپشن کی نشاندہی، اسے حقائق اور جرأت سے بے نقاب کرنے اور احتساب کے مطالبے نے کرپشن زدہ ملکوں کے سیاسی ابلاغ میں بڑی جگہ بنائی۔ اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ یہ بڑا پریشر ٹول آگیا اور بہت سی حکومتوں کے خاتمے کی وجہ یہ ہی کرپشن بننے لگی۔ جب یہ ہونے لگا تو غریب ملکوں کے لوٹے عوامی مال کو اپنے ہاں تحفظ دینے والے ترقی یافتہ ملکوں کے کان بھی کھڑے ہوگئے۔ سو اتمام حجت کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوتین قرار دادیں منظور ہوئیں۔ سیکرٹری جنرل کوفی عنان بھی اس کے لیے سرگرم رہے۔ 

ہمارے صدر جنرل مشرف بھی عالمی ادارے میں جاکر عالمی انسداد کرپشن کا ڈنکا بجا آئے، لیکن ترقی یافتہ ممالک نے وہ کچھ نہ کیا جو انسداد منشیات اور دہشت گردی کے لیے عملاً کیاجانا مقصود تھا۔ تاہم غریب ممالک میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ کرپشن کی انڈرورلڈ جس میں وائٹ کالر مجرم حکمران، حکمرانوں کے بنائے نظام کرپشن کے مقابل ترقی پذیر ممالک اور کچھ جان پکڑتی سول سوسائٹیز کے درمیان مخالفت و مزاحمت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ 

اس پر ترقی یافتہ ممالک میں چند دکھاوے کے اقدامات ضرور ہوئے۔ اشک شوئی اور اپنی سکن سیف رکھنے کے لیے کمال مہارت سے کچھ تنظیمیں بظاہر انسداد منی لانڈرنگ کے لیے بھی قائم ہوئیں، یہ اب ترقی پذیر مقروض ممالک پر بلواسطہ سیاسی دبائو ڈالنے والے عالمی مالیاتی ادارے کے طور پرآشکار ہوتی جا رہی ہیں۔ جن میں ایف اے ٹی ایف تو خاصی بے نقاب ہو چکی۔ جسے ابھی تک بھارت ریاستی دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ برائے جملہ ممنوعہ مقاصد کے لیے بھارتی حکومت اور انڈین بینکوں کے دھندے کی عالمی میڈیا کی خبروں کی خبر نہیں ہوئی۔ پاکستان پر اس کا دبائو اور دباؤ اور دباؤمکمل بے نقاب ہے۔ (جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔