Time 17 فروری ، 2022
بلاگ

قدیم ترین جاپانی شہنشاہیت کا راز

شہنشاہ جیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 660 قبل مسیح جاپان کے پہلے سربراہ ریاست تھے۔
شہنشاہ جیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 660 قبل مسیح جاپان کے پہلے سربراہ ریاست تھے۔

لفظ 'بادشاہ' یا بادشاہوں کا بادشاہ 'شہنشاہ' ذہن میں آئے تو مطلق العنانیت کا تصور ابھرتا ہے۔  ایک ایسی سوچ جنم لیتی ہے کہ لامتناہی اختیارات کا حامل شخص طاقت کے نشے میں چور ہو کر رعایا کو سر اٹھانے نہیں دیتا ہوگا اور یہی اس کی شہنشاہیت کا راز ہوگا۔ 

سوال یہ ہے کہ جاپان جہاں شہنشاہ محض علامتی کردار کا حامل ہے، وہاں دنیا کی طویل ترین موروثی شہنشاہیت آج تک قائم کیسے ہے اورکیوں شہنشاہ ناروہیتو کی سالگرہ پر پورے جاپان میں جشن کا سماں ہے؟

195 ممالک پر مشتمل دنیا میں اس وقت 44 ایسے ہیں جہاں ریاست کا سربراہ بادشاہ یا ملکہ ہے۔ ان میں ایشیا کے 13، یورپ کے 12 ، افریقا کے 10، اوشیانا کے 6 اور افریقا کے 3 ممالک شامل ہیں۔ ان سب میں جاپان واحد ملک ہے جہاں ایک ہی خاندان کی شہنشاہیت چلی آرہی ہے۔

شہنشاہ جیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 660 قبل مسیح جاپان کے پہلے سربراہ ریاست تھے۔ پیڑھی در پیڑھی یہ شہنشاہیت اولاد میں منتقل ہوتی رہی اوراب شہنشاہ ناروہیتو جاپان کے 126 ویں سربراہ ہیں۔ ناروہیتو کے والد آکیہیتو نے 2019 میں کنارہ کشی اختیارکرکے یکم مئی کو تخت بڑے بیٹے کو سونپ دیا تھا اور وہ اب ایمپرر ایمریٹس کہلاتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ 126 شہنشاہوں نے جاپان میں ہمیشہ چین کی بانسری ہی بجتے دیکھی ہو یا زیر نگیں علاقوں کے باسیوں نے ہمیشہ ان کا ہاراورپھولوں سے سواگت کیا ہو۔ دیومالائی حیثیت کے حامل پہلے شہنشاہ جیموں نے جب سلطنت کی بنیاد رکھی تو کیشوجزیرے سے یاماتو میں جھنڈے گاڑھنے تک انہیں ہرقدم پر قبائلی سرداروں سے خونریز جنگوں کاسامنا ہوا۔

شہنشاہ میجی
 شہنشاہ میجی

صدیوں بعد اسی نسل کے شہنشاہ میجی نے جب اثرورسوخ کا دائرہ جاپان سے باہرچینی اورکوریائی علاقوں تک پھیلایا تو ہر پڑاو سے پہلے کا لمحہ ان کے لیے بھی سخت امتحان تھا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ 1904 سے 1905 تک جاری جنگ میں فتح حاصل کرکے شہنشاہ میجی نے جاپان کی طاقت سے یورپ کو ایسے دہشت ذدہ بھی کیا کہ بعض تاریخ داں اس روسو جیپینز لڑائی کو جنگ عظیم اول اور دوم کی بنیاد قراردینے لگے۔

مگر یہ وہ دور تھا جب طلوع سورج کی زمین پر جاپانی شہنشاہ طاقت کے سرچشمہ تھے۔ جاپان میں انہیں اس سورج کی دیوی اماتیراسو کی عظیم نسل کا چشم وچراغ تصور کیا جاتا تھا جس نے اپنے پوتے کونادر تلوار، بیش قیمت زیور اورغیرمعمولی آئینہ دے کرصوبے ازمو پراتارا تھا۔ رعایا انہیں دیوتا سمجھتے تھے اوروہ آفاقی حیثیت کے حامل تھے۔ اس وقت تصوربھی نہیں تھا کہ مطلق العنان شہنشاہ ایک روز سیاسی طاقت نہیں محض قومی اتحاد اور ہم آہنگی کی علامت کے طورپر جانا جائے گا۔

یہ الگ بات ہے کہ اختیارات میں یہی کمی، شہنشاہ کے اقتدار کو دوام دینے کی بنیاد بنی۔ اختیارات شوگن یعنی فوجی سربراہوں کو منتقل ہوئے تو خرابیوں کی زمہ داریاں بھی انہی پرآئی، انگلیاں بھی انہی پراٹھیں، وہی سزاوار ہو کر عہدہ چھوڑنے پر مجبور بھی ہوئے۔ 1947 سے جاپان میں جمہوریت کادور دورہ ہوا تو مسائل کا سبب وزراعظم ٹھہرائے گئے اور ایک ایک کرکے ہٹائے گئے۔ یہ تصور محال نہیں کہ جس جاپان میں پچھلے 20  برس میں 10 وزراعظم تبدیل کیے گئے ہوں، وہاں اگرآئینی لحاظ سے شہنشاہ ہی نظام حکومت چلاتا تو نوبت کیا آئی ہوتی؟

اب جاپان میں 'رسمی اختیارات میں نجات فارمولے' کے تحت شہنشاہ پارلیمنٹ کے نامزد وزیراعظم کا تقررکرتا ہے، کابینہ کے مقرر کردہ جج کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کرتا ہے۔ وزرا، سفیروں اور اعلی افسروں کی عہدوں پر توثیق اسی کا ذمہ ہے۔ ایوان کااجلاس بلانا، اسے توڑنا اورپارلیمنٹ کے الیکشن کااعلان بھی اسی کااختیار ہے۔ وہی مجرم کی سزا میں کمی، معافی یا کسی کو مہلت دینے اور حقوق بحال کرنے کا بھی حق رکھتا ہے اور نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو اعزازات سے نوازتاہے۔

مختلف ممالک کے سفرا بھی شہنشاہ ہی کو اسناد سفارت پیش کرکے کام کا عملی آغاز کرتے ہیں۔ غیرملکی وزیروں اور سربراہوں کی شہنشاہ سے ملاقات رسمی ہی سہی مگر اسے خصوصی عزت افزائی سمجھا جاتا ہے۔ قدیم روایات سے جڑے کچھ اہم امور بھی شہنشاہ کو انجام دینا ہوتے ہیں۔ ان میں ملک کی سلامتی اورقوم کی خوشحالی کے لیے عبادات بھی شامل ہیں۔ تاہم شہنشاہ کے ہر کام میں کابینہ کا مشورہ اور منظوری لازم و ملزوم ہے۔

تئیس فروری کو 62 ویں سالگرہ منانے والے شہنشاہ ناروہیتو کے تخت سنبھالنے کے بعد شاید ان کا سب سے اہم کام عوام کی صحت اور کورونا وبا سے متاثر معیشت کی بحالی کے لیے دعائیں اور لوگوں کی حوصلہ افزائی رہا ہے۔

شہنشاہ ناروہیتو
شہنشاہ ناروہیتو

دسمبر سن 2019 کو چین میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آنے کے دوسرے ہی ہفتے میں یعنی 16 جنوری کو جاپان میں کورونا کا کیس سامنے آگیا تھا۔ ٹوکیو اولمپکس ملتوی کرنا پڑے تھے اوردنیا کی اس تیسری بڑی معشیت کا جی ڈی پی سات اعشاریہ آٹھ فیصد تک گرگیا تھا۔ تاہم وبا سے اموات کی تعداد میں نسبتا کمی،التوا ہی سے سہی اولمپکس کاانعقاد اور معیشت کا تیزی سے سنبھالا جانا،اکثرجاپانی شہریوں کے نزدیک شہنشاہ کی دلی دعاؤں ہی کا نتیجہ ہے۔

جاپان کے شہنشاہ کوان کی سادگی مگر پروقار انداز کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ شہنشاہ نارہیتو نے اپنے والد کی طرح ایک عام جاپانی لڑکی ماساکو عودہ سے محبت کی شادی کی ہے جن سے ان کی واحد بیٹی شہزادی آئیکو ہیں۔ بیٹے کی خواہش میں انہوں نے دوسری شادی کا فیصلہ نہیں کیا۔

جاپان کی شاہی تاریخ پرنظر ڈالیں تو شاید شہنشاہ کواس کی ضرورت بھی نہیں۔ماضی میں 8خواتین تاج وتخت سنبھال چکی ہیں جن میں سے دو کو دوبار ملکہ بننا نصیب ہوا۔ اسطرح جاپان میں 10 بار ملکہ نے نظام حکومت سنبھالا ہے۔

یہ درست ہے کہ موجودہ قانون کے تحت خواتین تخت نشین نہیں ہوسکتیں۔تاہم یہ ایسا قانون ہے جسے بوقت ضرورت دو تہائی نہیں محض سادہ اکثریت سے تبدیل کیاجاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہنشاہ کے 5 برس چھوٹے بھائی ولی عہد شہزادہ اکیشینو اور ان کے بیٹے ہیشاہیتوکی موجودگی میں اس کی ضرورت ہی نہ ہو۔

جاپان کے کاروبار حکومت میں شہنشاہ کا کردار رسمی سہی لیکن اسے اس بات کامکمل اختیار حاصل ہے کہ تاج وتخت اپنی نسل میں کسے سونپا جائے گا۔ شاید یہی اختیار جاپانی شہنشاہیت کا اہم ترین ستون بھی ہے۔ عین ممکن ہے اسی کی بدولت جاپان میں ڈیڑھ ہزار برس سے شہنشاہیت نہ صرف قائم ہے بلکہ اختیارات نہ ہونے کے باوجود اس حد تک قابل احترام ہے کہ سال نو ہو، تاجپوشی کا دن ہو یا سالگرہ ،محل جاکر بادشاہ کا دیدار کرنے کے لیے جاپانی شہری ترستے ہیں اور جو شہنشاہ کو قریب سے دیکھ لے، وہ اسے زندگی کا قیمتی ترین لمحہ تصورکرتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔