21 فروری ، 2022
دنیا میں ہر صاحب فکر یوکرائن کی صورتحال پرتشویش میں مبتلا ہے۔ اسے یہ فکر ستا رہی ہے کہ آیا اس معاملے پر روس اور امریکا کے درمیان کہیں جنگ تو نہیں چھڑ جائے گی؟ جنگ کے اثرات کیا ہوں گے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے جنگ کے بادل چھٹ جائیں؟
لوگ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ یوکرائن کے بحران نے اسی لمحے سر کیوں اٹھایا ہے؟ اس سے فائدہ کسے ہوگا؟
کم سے کم امریکا میں جو بائیڈن کے برسر اقتدار آنے پرلوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ واشگنٹن انتظامیہ روس سے پہلے چین سے نمٹنےکی کوشش کرےگی۔
اب ذرا یہ دیکھ لیں کہ یوکرائن کا بحران پیدا کرنے کے لیے اسی گھڑی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
کشیدگی ایسے لمحے پیدا کی گئی ہے جب امریکا میں وسط مدتی یعنی مڈٹرم الیکشنزہونے کو ہیں۔ صدرجو بائیڈن کی مقبولیت تیزی سے گررہی ہے اور اس وقت وہ اپنے ری پبلکن پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی کم مقبول ہیں۔ وہی ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنی بعض حرکتوں کی وجہ سے قابل نفرت ہوتے چلے گئے تھے۔ اور وہی ڈونلڈٹرمپ جو اپنے ڈیموکریٹ حریف کو 'بھلکڑ' اور'سوتو جو' کہہ کر انکا مذاق اڑاتے تھے۔
مڈٹرم الیکشنز کے ماحول میں اگر جو بائیڈن روس کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہیں تو یقینا ان کی مقبولیت میں کچھ بہتری آئےگی، لوگوں کی توجہ داخلی امور سے اگرتھوڑی سی بھی ہٹا دی گئی تو کانگریس کا الیکشن لڑنے والے ڈیموکریٹس کی جیت کے آثار کچھ بہتر ہوسکیں گے۔
یوکرائن بحران کا وقت امریکا کے قابل اعتماد اتحادی یورپ کے لحاظ سے بھی کم اہم نہیں۔ آخر پچھلے چند عشروں میں یورپ کی سرفہرست معشیتوں کا توانائی کے حصول کےلیے جھکاؤ روس کی جانب بڑھ رہا ہے۔ نوبت یہ ہے کہ اس وقت یورپ قدرتی گیس کی ضروریات کا چالیس فیصد حصہ روس سے خریدتا ہے اورجرمنی ان میں سب سے بڑھ کر ہے۔
صنعتی لحاظ سے یورپ کی سب سے مضبوط معیشت جرمنی نے تو امریکا کی مخالفت مول لے کر روس کی انرجی شہ رگ نارڈ اسٹریم 2 کو اپنے علاقے سے جوڑ لیا ہے اور کیوں نہ ہو؟
نارڈ اسٹریم 2 جرمنی کےلیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتی ہے۔ روس 1230 کلومیٹر لمبی اس پائپ لائن ہی کے ذریعے جرمنی کو گیس کی فراہمی دوگنا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ والو کھلتے ہی گیس کی فراہمی 110 ارب کیوبک میٹرسالانہ ہوجائے گی جو مستقبل میں جرمنی کی ضروریات سے بھی کہیں زیادہ ہوگی۔
اگر نسبتاً یہ سستی گیس جرمنی کو مل گئی تو کورونا وبا کے خاتمے کے بعد جرمنی صنعتی ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو لےگا اور اس طرح یورپ ہی نہیں دنیا میں اپنی پیداوار کے حوالے سے کہیں بہتر پوزیشن پر آجائےگا۔
نارڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن روس کے لیننگراڈ اوبلاسٹ ریجن میں واقع اُسٹ لوگا علاقے سے شروع ہوتی ہے۔ بالٹک سمندر میں سفر کرتی ہوئی یہ پائپ لائن جرمنی کے علاقے گرایفسوائلڈ سے جاملتی ہے۔ راستے میں یہ فن لینڈ، سوئیڈن اور ڈنمارک کے پانیوں سے گزرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ منصوبے کےلیے ان تینوں یورپی ممالک کی بھی منظوری لی گئی ہے۔
وسطی یورپ کے ممالک آسٹریا، جمہوریہ چیک اور فرانس بھی اس پائپ لائن سے گیس حاصل کرسکیں گے، اس لیے یہ بھی پراجیکٹ کے حامیوں میں شامل ہیں،ساتھ ہی کئی دیگر پڑوسی ممالک کو بھی این ایس 2 پراعتماد میں لیا گیا ہے۔
یوکرائن اور پولینڈ نارڈ اسٹریم 2 کے شدید مخالف ہیں۔ پولینڈ کے لیے یہ پائپ لائن دوہرا دھچکہ ہے کیونکہ جرمنی پہلے ہی نارڈ اسٹریم ون کے زریعے بڑی مقدار میں گیس حاصل کررہا ہے اوراب یہ دوگنا ہوگئی تو پولینڈ کا علاقہ میں گیس کا مرکز بننے کا خواب چکنا چور ہوسکتا ہے۔
یوکرائن اور پولینڈ دعویدار ہیں کہ روس توانائی کو بطور ہتھیار استعمال کرکے ان کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیف اور وارسا نارڈ اسٹریم کے بدترین مخالفین میں سے ہیں۔ ان دونوں ممالک کا اصرار ہے کہ روس پہلے سے موجود گیس پائپ لائنوں ہی کے ذریعے خطے کو گیس کی فراہمی جاری رکھے۔
یہی وہ بات ہے جس کی وکالت واشنگٹن بھی کررہا ہے۔ یوکرائن معاملے پر طبل جنگ بجا کر امریکا چاہتا ہے کہ وہ روس کو نارڈ اسٹریم 2 کے ذریعے گیس جرمنی کو دینے سے روکے۔
جنگ ہو نہ ہو، محض کشیدگی ہی سے امریکا کو سب سے زیادہ فائدہ ہورہا ہے۔ دفاعی ضروریات کے نام پر امریکی کمپنیاں پولینڈ جیسے یورپی ممالک کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچنے کے معاہدے کرچکی ہیں۔
امریکا کی پیٹرولیم کمپنیاں بھی بحران سے فائدہ اٹھارہی ہیں کیونکہ انہیں بہتر قیمتوں پر یورپ میں ایل این جی فراہمی کے ٹھیکے مل رہے ہیں۔
اس کے برعکس حریف روس معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ جنگ کی تیاری ہی ماسکو کی ان تمام اقتصادی کامیابیوں پر پانی پھیر سکتی ہے جو پچھلے دو عشروں میں حاصل کی گئی ہیں۔ جنگ چھڑی تو روس کے صدر پوٹن جنہوں نے انقلابی اقدامات کے ذریعے دیوالیہ ملک کو دنیا کے نقشے پر پھر سے ابھارا ہے،ان کے ہاتھ سے یہ سب کچھ ریت کی طرح جاتا رہے گا۔
جہاں تک برلن کا تعلق ہے، اسے ایک غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ جرمنی جیسے ممالک کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ روس سے گیس کی درآمد چھوڑ کر امریکا اوراس کے دیگراتحادیوں کی جانب سے سپلائی کا انتظار کریں۔
جرمنی کو توانائی کے متبادل پر انحصار کے لیے وقت اور انفراسٹرکچر درکا ہے۔ یہ سب بھی ہو تب بھی جس قیمت پر روسی کمپنیاں جرمنی کو گیس کی فراہمی پر آمادہ ہیں، وہ کئی وجوہات کی بنا پر امریکی کمپنیوں کے لیے ممکن نہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولس کی بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا انحصار نچلے اور مڈل کلاس طبقے پر ہے جو سردیوں میں گھر گرم رکھنے اور ضرورت کی اشیا مناسب داموں خریدنے کے لیے سستی گیس چاہتے ہیں۔ کشیدگی بڑھنے سے گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کی سیاسی قیمت چانسلرہی کو بھگتنا پڑے گی۔
جہاں تک یوکرائن کا تعلق ہے، روس سے کشیدگی اس پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرے گی۔ یوں بھی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف جنگ کی باتیں ہوئی ہیں اور یوکرائن کی معیشت لڑکھڑا گئی ہے۔ ملک کو بحران سے دوچار ہوتا دیکھ کر نہ صرف بزنس مین بلکہ سیاسی جماعتوں کے رہ نما اور بیروکریٹس بھی ملک سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔
یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی ان افراد کو شرم دلانے کی ناکام کوشش میں ہیں اور برا بھلا کہہ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں۔ صدر زیلنسکی امریکا سے بھی نالاں ہیں جو روس کے ممکنہ حملے کی ایک کے بعد دوسری تاریخ دے رہا ہے جو ملک میں افراتفری کا باعث بن رہی ہے۔
صدر زیلنسکی یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ماحول میں یوکرائن کے لیے یورو اٹلانٹک پرواز آسان نہیں ہوگا۔
اس سوال کا جواب آسان نہیں مگر زمینی حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کریں تو اس کے قریب تر پہنچا جاسکتا ہے۔ لیکن پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جنگ شروع کرنے کا باعث کون بن سکتا ہے؟
یوکرائن تو اس پوزیشن ہی میں نہیں کہ وہ جنگ شروع کرے یا اسے ہونے سے روکے۔ صدر زیلنسکی اگر کچھ کرسکتے ہیں تو یہ کہ جنگ روکنے کی کوشش میں مصروف نظر آئیں۔
یورپی ممالک کی اکثریت بھی جنگ شروع کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ کورونا وبا سے نمٹنے کے بعد اب انہیں اقتصادی بحالی کا چیلنج درپیش ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگ ہوئی تو آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں وہ بھی آئیں گے۔
کہا جارہا ہے کہ یوکرائنی عوام اپنے وطن کادفاع کرنے کے لیے کٹ مریں گے مگریہ دعوے اس لیے کھوکھلے ہیں کہ یورپی ممالک جانتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں پچاس سے ساٹھ لاکھ یوکرائنی شہری یورپ میں پناہ کے طالب ہوں گے۔
یہی وجوہات ہیں کہ امریکا کا اہم ترین اتحادی یورپ بحران سے نمٹنے کے معاملے پر بری طرح منقسم ہے۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو امریکا سے جنگ صدر پوٹن کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر وہ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایسا ہی ہے تو انہوں نے مبینہ طور پر ڈیڑھ لاکھ فوجی یوکرائن کی سرحد پر جمع کیوں کیے ہیں؟
وجہ یہ ہے کہ ماسکو جنگ عظیم کے واقعات اکیسویں صدی میں دہرائے جاتے دیکھنا نہیں چاہتا۔ روس نے تاریخ سے یہی سبق سیکھا ہے کہ دشمن کو اپنی سرحد پر ہی روکنے میں عافیت ہے۔
امریکا سے فی الحال جنگ کے برعکس روس کی کوشش ہوگی کہ وہ چین کی طرح خاموشی سے رفتہ رفتہ اقتصادی سپر پاور بن کرابھرے اور پھر فیصلہ کن معرکے کی جانب بڑھے۔
بظاہر امریکا ہی جنگ کا خواہش مند ہے کیونکہ چین کے بعد روس کی اقتصادی مضبوطی اس کے لیے نیک شگون نہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ روس اور چین دونوں ہی امریکا کے خلاف متحد ہورہے ہیں۔
امریکا کا یہ بھی دعوی ہے کہ صدر پوٹن یوکرائن پرحملہ کرنے کے لیے کسی فالس فلیگ آپریشن کا سہارا لے سکتے ہیں ، یہ بات عقل اس لیے بھی نہیں مانتی کہ یہ امریکا ہی تھا جس نے دعوی کیا تھا کہ عراق کے سابق صدر صدام کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور یہ بھی کہ شام کے صدر بشارالاسد نے اپنے ہی ملک کے شہریوں پر کیمیکل ہتھیار استعمال کیے تھے، حقیقت یہ کہ دونوں دعوے بالکل بے بنیاد نکلے تھے۔
الزامات اور دعوے کچھ بھی ہوں، جنگ شروع کرنے کی پوزیشن میں امریکا بھی نہیں۔ تو پھر ہوکیا سکتا ہے؟
جو بات ممکن ہے وہ یہ کہ واشنگٹن کوئی ایسی چال چلے جس سے ماسکو جال میں پھنس جائے اور یوکرائن کے معاملے پر جنگ چھڑنے کی بنیاد بن جائے۔
صورتحال کو آسانی سے سمجھنا ہو تو ٹام اینڈ جیری شو کی وہ قسط دیکھنی چاہیے جس میں جیری ایک کے بعد دوسری نازک چیز ٹام کے سر پر توڑ کر دودھ میں نہانا چاہتا ہے۔ یوکرائن کےپس منظر میں یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہوگا کہ آیا ٹام خود کو اس صورتحال سے بچانے میں کامیاب ہوتا بھی ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو کس حد تک؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔