یوکرین روس جنگ: امریکا اب تک لاتعلق کیوں؟ جنگ میں کودا تو کیا نتائج ہوں گے؟

جنگ عظیم دوئم کے بعد سے 24 مختلف ممالک میں کسی نہ کسی طرح فوجی آپریشن میں ملوث رہنے والے امریکا کو یوکرین کے معاملے پر سانپ کیوں سونگھ گیا؟— فوٹو: فائل
جنگ عظیم دوئم کے بعد سے 24 مختلف ممالک میں کسی نہ کسی طرح فوجی آپریشن میں ملوث رہنے والے امریکا کو یوکرین کے معاملے پر سانپ کیوں سونگھ گیا؟— فوٹو: فائل

امریکا حالیہ چند ہفتوں سے مسلسل پیش گوئی کر رہا تھا کہ روس یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے تاہم روس ابتداء میں اس سے انکار کرتا رہا لیکن 24 فروری کو یوکرین پر چڑھائی کرکے اس نے امریکی خدشات کو درست ثابت کردیا۔

امریکا کے موجودہ صدر جو بائیڈن یوکرین پر روسی حملے کو روکنے کیلئے سفارتی محاذ پر تو کافی متحرک نظر آئے، روس کیخلاف تند و تیز بیانات بھی دیے لیکن حملہ ہوجانے کے بعد روس پر اقتصادی پابندیوں کے علاوہ امریکا سمیت کسی بھی یورپی ملک نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے یوکرین کو روس کا مقابلہ کرنے میں مدد ملی ہو۔

خود یوکرینی صدر ولودو میر زیلینسکی نے بھی اس کا برملا اظہار کیا کہ دنیا کا طاقت ور ترین ملک دور سے بیٹھ کر دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہا۔ تو ایسی کیا وجہ ہے کہ سپر پاور امریکا اس جنگ سے خود کو دور رکھ رہا ہے۔ آئیے امریکا کے اس جنگ میں نہ کودنے کی چند ممکنہ وجوہات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

جب امریکی صدر جو بائیڈن یوکرین کیخلاف روس کے جارحانہ عزام سے دنیا کو آگاہ کر رہے تھے تو ساتھ ہی وہ یہ بات بھی واضح کر چکے تھے کہ امریکی اب کسی اور کی جنگ لڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں جبکہ دوسری جانب روسی ہر طرح سے جنگ کیلئے تیار تھے۔ 

بائیڈن نے تو اپنے شہریوں کے محفوظ انخلاء کیلئے بھی امریکی فوجی یوکرین بھیجنے سے انکار کردیا کہ کہیں روس اس کا کوئی اور مطلب نہ نکالے اور بات آگے نہ بڑھ جائے۔ یوکرین کی عسکری مدد تو درکنار امریکا نے وہاں پہلے سے موجود ملٹری ایڈوائزرز اور مبصرین کو بھی واپس بلایا۔ یعنی یہ بات تو طے ہے کہ امریکا کو 100 فیصد یقین تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا اور ایسا ہونے کی صورت میں وہ امریکی ملٹری ایڈوائزرز کی یوکرین میں موجودگی کا خطرہ بھی مول لینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

سوال یہ ہے کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کی غلط خبر کو بنیاد بناکر چڑھائی کرنے، القاعدہ کا خاتمہ کرنے کا کہہ کر افغانستان کو خون میں نہلانے، بشار الاسد کیخلاف عسکری محاذ بنانے غرض یہ کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سے 24 مختلف ممالک میں کسی نہ کسی طرح فوجی آپریشن میں ملوث رہنے والے امریکا کو  یوکرین کے معاملے پر سانپ کیوں سونگھ گیا؟ 2013 میں بھی جب روس نے یوکرین کے علاقے کریمیا سے الحاق کیا تب بھی امریکا زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک تو یہاں سامنے روس کھڑا ہے جو بلاشبہ دنیا کی دوسری بڑی عسکری قوت ہے اور امریکا اس سے الجھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکا نے اس معاملے میں ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔

1- روس یوکرین جنگ سے امریکی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں

امریکا برملا یہ کہتا ہے کہ جس کسی سے بھی اس کی سلامتی کو خطرہ ہوگا اس کیخلاف کارروائی کی جائے گی چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہو۔ اس قول کے مطابق تو امریکا کا یوکرین تنازع میں مداخلت نہ کرنا درست لگتا ہے۔ یوکرین نہ ہی امریکا کے قریب واقع ہے اور نہ ہی اس کی سرحد ملتی ہے۔ نہ ہی یوکرین میں امریکا کا کوئی فوجی اڈہ وہاں ہے اور نہ ہی وہاں تیل کے کوئی بڑے اسٹریٹجک ذخائر موجود ہیں جن کی تباہی سے عالمی معیشت کا بٹہ بیٹھنے کا خطرہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یوکرین امریکا کا کوئی بڑا تجارتی شراکت دار بھی نہیں۔۔۔۔ پھر امریکا یہاں اپنا وقت اور وسائل کیوں ضائع کرے؟

 مذکورہ وجوہات کا اگر ماضی کے پیرائے میں جائزہ لیں تو ایسا نہیں کہ جن ممالک میں امریکا کے مفادات نہیں ہوتے وہ وہاں فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنتا۔ ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ سابق امریکی صدور دوسروں کی خاطر قومی مفاد نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے فوجیوں کی قربانی اور پیسہ ضائع کرتے رہے ہیں۔

1995 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے یوگوسلاویہ کی جنگ میں فوجی مداخلت کی تھی جس کا اختتام یوگوسلاویہ کی تقسیم پر ہوا۔ اسی طرح 2011 میں باراک اوباما نے لیبیا کی خانہ جنگی میں بھی یہی کردار ادا کیا اور امریکا نے یہ دونوں فوجی مداخلتیں انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کو بنیاد بناکر کیں۔ تو کیا یوکرین میں انسان نہیں بستے؟

اسی طرح 1990 میں جارج بش (سینیئر) نے کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کیلئے بنائے جانے والے بین الاقوامی عسکری اتحاد کو یہ کہہ کر جائز قرار دیا کہ وہ جنگل کے قانون کے خلاف قانون کی حکمرانی کا دفاع کر رہے ہیں۔

امریکاکی موجودہ بائیڈن انتظامیہ میں قومی سلامتی کے حکام بین الاقوامی قوائد، امن و سلامتی کیخلاف روسی خطرے کیخلاف بھی اسی طرح کی زبان استعمال کرتے سنے گئے لیکن اس بار امریکی ردعمل میں اولیت معاشی و اقتصادی پابندیاں تھیں نہ کہ فوجی مداخلت۔

2- بائیڈن کا فوجی مداخلت سے اختلاف 

امریکا کے اس جنگ سے دور رہنے کی ایک وجہ جو بائیڈن کی عدم مداخلت پر مبنی ذاتی سوچ بھی ہے حالانکہ بائیڈن شروع سے ایسا نہیں سوچتے تھے— فوٹو: فائل
امریکا کے اس جنگ سے دور رہنے کی ایک وجہ جو بائیڈن کی عدم مداخلت پر مبنی ذاتی سوچ بھی ہے حالانکہ بائیڈن شروع سے ایسا نہیں سوچتے تھے— فوٹو: فائل

امریکا کے اس جنگ سے دور رہنے کی ایک وجہ جو بائیڈن کی عدم مداخلت پر مبنی ذاتی سوچ بھی ہے حالانکہ بائیڈن شروع سے ایسا نہیں سوچتے تھے، وقت کے ساتھ ان کے مؤقف میں تبدیلی آئی ہے۔ 90 کی دہائی میں کانگریس کے رکن کے طور پر انہوں نے امریکی فوجی آپریشنز کی حمایت کی ہے۔ 2003 میں امریکا کی عراق پر چڑھائی کی سنگین غلطی کے بھی حق میں انہوں نے ووٹ دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بائیڈن غیر ملکی سرزمین پر امریکی فوجی طاقت کے استعمال کے خلاف ہوگئے۔

جو بائیڈن نے لیبیا میں اوباما کے دور میں فوجی مداخلت اور افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی بھی مخالفت کی تھی۔  بائیڈن نے گزشتہ برس افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے فیصلے کو بھی درست قرار دیا تھا حالانکہ ناقدین امریکی انخلا کے بعد انسانی بحران اور افرا تفری پھیلنے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔

اسی طرح جو بائیڈن کے متعمد خاص وزیر خارجہ انٹونی بلنکن (جنہوں نے 20 سال تک بائیڈن کے ساتھ رہ کر صدر کی خارجہ پالیسی کے خدوخال ترتیب دیے ہیں) بھی دوسروں کی جنگ میں کودنے کے حامی نہیں، وہ قومی سلامتی کی بقاء عسکری مداخلت کے بجائے موسمیاتی تبدیلی ، عالمی وباؤں کیخلاف اقدامات اور چین سے مقابلہ کرنے کو قرار دیتے ہیں۔

3- امریکی شہری بھی اور پرائی جنگ نہیں چاہتے

ہمیشہ جنگ کی حمایت کرنے والے ری پبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز بھی نہیں چاہتے ہیں کہ بائیڈن امریکی فوجی یوکرین بھیجیں اور پیوٹن سے براہ راست جنگ شروع کردیں— فوٹو: فائل
ہمیشہ جنگ کی حمایت کرنے والے ری پبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز بھی نہیں چاہتے ہیں کہ بائیڈن امریکی فوجی یوکرین بھیجیں اور پیوٹن سے براہ راست جنگ شروع کردیں— فوٹو: فائل

ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ امریکی شہری بھی اب دوسروں کی جنگ لڑ لڑ کر اکتا چکے ہیں۔ حال ہی میں امریکا میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 72 فیصد شہریوں نے کہا کہ روس یوکرین تنازع میں امریکا کا کردار نہایت محدود یا پھر نہ ہونے کے برار ہونا چاہیے۔

امریکی شہری داخلی مسائل پر حکومت کی توجہ چاہتے ہیں جیسا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور چونکہ امریکا میں وسط مدتی انتخابات بھی قریب ہیں تو بائیڈن انتظامیہ بھی فی الحال لوگوں کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکی کانگریس میں بھی ری پبلکنز اور ڈیموکریٹکس دونوں جانب سے جنگ میں کودنے کے بجائے سخت اقتصادی پابندیوں کی بات کی جارہی ہے یہاں تک کہ ہمیشہ جنگ کی حمایت کرنے والے ری پبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز بھی نہیں چاہتے ہیں کہ بائیڈن امریکی فوجی یوکرین بھیجیں اور پیوٹن سے براہ راست جنگ شروع کردیں۔

فوجی مداخلت کے حق میں جارحانہ عزائم رکھنے والے ایک اور ری پبلکن سینیٹر مارکو روبیو بھی اس جنگ میں ہاتھ ڈالنے سے کترا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کسی کے بھی حق میں نہیں ہوگی۔

تیسری جنگ عظیم کا خطرہ

ایک بیان میں بائیڈن نے کہا تھا کہ روس سے جنگ کرنا کسی دہشت گرد تنظیم سے نمٹنے جیسا نہیں، ہمیں دنیا کے طاقتور ترین فوج میں سے ایک سے لڑنا ہوگا— فوٹو: فائل
ایک بیان میں بائیڈن نے کہا تھا کہ روس سے جنگ کرنا کسی دہشت گرد تنظیم سے نمٹنے جیسا نہیں، ہمیں دنیا کے طاقتور ترین فوج میں سے ایک سے لڑنا ہوگا— فوٹو: فائل

ہمارے نزدیک امریکا کے یوکرین جنگ سے دور رہنے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ تیسری جنگ عظیم چھِڑ جانے کا خطرہ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار امریکا اور روس کے پاس ہی ہیں۔

بائیڈن نہیں چاہتے کہ یوکرین میں روسی و امریکی فوجی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں اور پھر تیسری جنگ عظیم شروع ہوجائے اور وہ اس کا واضح اعتراف بھی کرچکے ہیں۔

اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں بائیڈن نے کہا تھا کہ روس سے جنگ کرنا کسی دہشت گرد تنظیم سے نمٹنے جیسا نہیں، ہمیں دنیا کے طاقتور ترین فوج میں سے ایک سے لڑنا ہوگا، یہ بہت مشکل صورتحال ہے اور اگر کوئی بھی غلطی ہوگئی تو چیزیں بہت تیزی سے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔

بائیڈن کے مذکورہ بیان اور امریکا کی بیرونی جنگوں میں کودنے کی تاریخ کو مدنظر رکھ کر  تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یوکرین کی جنگ میں نہ کودنے کی سب سے بڑی وجہ روس کا مدمقابل ہونا ہے ورنہ امریکا پتلی گردن دبوچنے میں وقت نہیں لگاتا چاہے اس کے مفادات ہوں یا نہیں وہ چوہدری بننے کا شوق پورا کر لیتا ہے۔

یوکرین کے معاملے میں ہاتھ ڈال کر امریکا کو فائدے کم اور نقصان زیادہ ہونے کا خدشہ ہے اور یہی چیز امریکا کو اس جنگ میں کودنے سے باز رکھے ہوئے ہے۔

مزید خبریں :