پاکستان
08 دسمبر ، 2012

منٹوہمارا ضمیر تھے ،ان کی انسان دوستی مثالی تھی،اردو کانفرنس

منٹوہمارا ضمیر تھے ،ان کی انسان دوستی مثالی تھی،اردو کانفرنس

کراچی…اختر علی اختر…ممتاز ادیب و شاعر ڈاکٹر ضیا ء الحسن نے کہا کہ ایک عظیم فن کار ہمیں ہماری اصل شکل دکھاتا ہے۔سعادت حسن منٹو کہتے ہیں کہ میں نے اپنے افسانے میں اپنی شرم ناک باتیں نہیں لکھیں جیسے مثنوی شاعری میں جنسی رویئے ملتے ہیں۔سعادت حسن منٹو کا یہ رویہ ایک عامیانہ ہے کیونکہ ادب کا بہت بڑا حصہ خارج کرنا پڑے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز بعنوان ”عظیم منٹو کی صدی(منٹو کی شخصیت کے ادبی جہات)“ کے گیارہویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پروفیسر شمیم حنفی، مسعود اشعر، زاہدہ حنا اور انتظار حسین نے بھی سعادت حسن منٹو کی شخصیت پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے مزید کہا کہ جدید اردو ادب میں فحش نگاری جتنی سعادت حسن منٹو کے حصے میں آئی اتنی وہ اور کسی کے حصے میں نہیں آئی، وہ فحش نگار نہیں تھے لیکن ان کی تحریروں پر فتوے جاری کئے جاتے رہے،ان کے رویے میں جرأت اور بے باکی نظر آتی ہے، پہلے جنسی مسائل کو ادیبوں نے لکھا اور آج ہم اپنے الفاظ میں لکھ رہے ہیں،ہمارے جدید ادب میں جنسی مسائل پر کچھ نہیں ملتا ہے ،آج کے ادیبوں کو جنس زدہ لکھ کر خارج کردیا جاتا ہے،طوائف بری نہیں ہے بلکہ ہم نے اسے برا بنایا ہے۔ سعادت حسن منٹو کہتے ہیں کہ جنس اور عورت کے بارے میں سعادت حسن منٹو کے خیالات بالکل ہماری سوچ کے برعکس ہیں۔ ممتاز ادیب ایم خالد فیاض نے اپنے مقالے بعنوان ناقدین منٹو، ایک تنقیدی جائز ہ میں کہا کہ سعادت حسن منٹو پر کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی ہے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور سعادت حسن منٹو اپنے فن کے حوالے سے غیر سنجیدہ تھے۔ مختار شیریں کی کتاب” نہ نوری نہ ناری“ میں سعادت حسن منٹو کے بارے میں خاص تجزیہ کیا ہے۔ ان کے افسانوں کی تعداد زیادہ تو نہیں ہے لیکن انہوں نے اس طرح قاری کی توجہ ضرور حاصل کر رکھی ہے۔ سعادت حسن منٹو کو ایک ایسے نقاد کی ضرورت ہے جو نہ اسے تنقید کی راہ دکھاتے اور نہ اصلاح کی۔ ممتاز کالم نویس رئیس فاطمہ نے کہا کہ سعادت حسن منٹو کے دو مجموعے اور خاکے بھی موجود ہیں لیکن ان پر کام نہیں کیا جا رہا۔ سعادت حسن منٹو اگر خاکہ نگاری پر توجہ دیتے تو وہ افسانہ نگار سے زیادہ مقبول ہوتے۔ سعادت حسن منٹو اپنی خاکہ نگاری سے شخصیت کی زندگی کی بھر پور عکاسی کرنے کا کمال رکھتے ہیں اور 80فیصد پورے اترتے ہیں۔ اعتدال اور توازن سعادت حسن منٹو کی زندگی میں نہیں تھا ۔”گنجے فرشتے“، ”میرا حشر “اور ”لاؤڈ اسپیکر“ سعادت حسن منٹو کے خاکوں کے مجموعے شامل ہیں۔ رئیس فاطمہ نے مزید کہا کہ سعادت حسن منٹو کے قلم کی کاٹ سے غلاظت کا پردہ ضرور چاک ہو جاتا ہے۔پری چہرہ نسیم بانو اپنے دور کی حسین اداکارہ تھیں ۔ ان کے بارے میں سعادت حسن منٹو نے بڑ ی حقیقت سے کام لیا۔سعادت حسن منٹو نے رات مخملی بستر کے بجائے کانٹوں بھرے بستر پر گزاری تھی اور یہی ان کی زندگی کا حاصل بھی ہے۔سعادت حسن منٹو کے تمام خاکوں میں ان کی اپنی شخصیت زیادہ نظر آتی ہے۔ادب میں دو اور دو چار کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ مجموعہ خاکہ لاوٴڈ اسپیکر میں ڈاکٹر رشید جہاں اور ان کی بہن بیگم خورشید جہاں جوٹی وی فنکارہ بھی تھیں ،پر تفصیلی مضمون لکھا گیا ہے۔ممتاز شاعرہ شاہدہ حسن نے کہا کہ ہم سعادت حسن منٹو کی صدی منا رہے ہیں۔سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کی وجہ سے ان پر 6بار مقدمہ بھی درج کیا گیا،3مرتبہ آزادی سے پہلے اور 3مرتبہ آزادی کے بعد۔ ان کی بہترین کتابوں میں کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، لحاف اور دیگر شامل ہیں۔ ممتاز افسانہ نگار زاہدہ حنا نے کہا کہ سعادت حسن منٹو ہمارا ضمیر تھے اور ضمیر سے بڑا آئینہ اور کون ہو سکتا ہے۔ وہ پاکستان سے واپس جانا چاہتے تھے۔سعادت حسن منٹو نے آج تک کے حالات 1951میں لکھ دیئے تھے۔ پاکستان کا جو حال ہونا تھا انہوں نے ضیاء الحق کے دور میں رونما ہونے والے حالات کو بطور خاص پیش کر دیا تھا۔ زاہدہ حنا نے کہا کہ سعادت حسن منٹو کو اب ایک اچھے قلم کار کے طور پر جانا پہچانا جا رہا ہے، انہیں فحش نگار اور نوجوانوں کا لکھاری قرار دیا گیاحالانکہ سعادت حسن منٹو ایک نہایت درد مند انسان تھے۔بر صغیر ہندو پاک کی تقسیم کے وقت جو حالات انہوں نے دیکھے انہیں قلمبند کر دیا تھا۔ وہ پاکستان نہیں آنا چاہتے تھے لیکن ان کی شریک حیات صفیہ اپنی دونوں بیٹیو ں کے ساتھ پاکستان آچکی تھیں، پھر سعادت حسن منٹو یہاں آکر ذلت کی زندگی بسر کرنے لگے اور ایک بوتل کیلئے افسانہ لکھنے لگے۔ بٹوارے کے بعد سکھ عورت کی زندگی پر انہوں نے ایک بار پھر افسانہ لکھا تھا۔ ممتاز ادیب، دانشور پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ ہندوستان میں سعادت حسن منٹو کو اردو سے الگ ہو کر دیکھا جائے تو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کی گئی اور ان پر جو مضامین لکھے گئے ان کا تعلق کسی ادب سے نہیں بلکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے لکھا تھا۔ سعادت حسن منٹو کے ہاں مجھے کسی بڑے وژن کا سراغ نہیں ملتا حالانکہ وہ بہت ہولناک اور دل میں اتر جانے والی کہانیاں لکھتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ ایک بڑا افسانہ نگار ہے۔سعادت حسن منٹو کا ٹھیک جائزہ تب لیا جائے جب ہم ان میں آزادی، فسادات، تقسیم وغیرہ سے نکلیں تو دوسرے پہلووٴں پر نظر کریں ، اتنے بڑے افسانہ نگار ہونے کے بعد ان کا ان کے بعد کے آنے والے افسانہ نگاروں پر اثر کیوں نہیں ہے۔ سعادت حسن منٹو کی انسان دوستی اور درد مندی مثالی تھی ۔سعادت حسن منٹو پر 300صفحات پر بھارت میں ہندی اور انگریزی میں کتاب بھی شائع کی گئی۔منٹو نامہ جو 5جلد میں شائع کیا گیا ہے اس سے ہمیں پوری معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ اب تک ان کی 268کہانیوں کا سراغ ملا ہے۔وہ مسلسل کہانیاں لکھتا ہی چلا جا رہا تھا اور لکھنے کی مشین بنا ہوا تھا۔پریم چند بھی58 برس زندہ رہے اور زندگی کی آزمائشوں سے گزرتے رہے۔ سعادت حسن منٹو کے معاصرین میں غلام عباس،بیدی اچھے رائٹرز نظر آتے ہیں۔268کہانیوں میں معاشرے کا عکس نظر آتا ہے۔ 20ویں صدی میں کئی افسانہ نگار پیدا ہوئے لیکن وہ زیادہ مقبول نہیں رہے اسی لئے سعادت حسن منٹو کو 20ویں صدی کا افسانہ نگار قرار دیا گیاہے۔ ممتاز ادیب اور افسانہ نگار انتظار حسین نے اپنی صدارتی تقریب میں کہا کہ پانچویں عالمی اردوکانفرنس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور آج اتفاق سے مجھے تقریب کی صدارت سونپ دی گئی ۔سعادت حسن منٹو جس عہد میں پیدا ہوئے وہ ایک بھر پور دور تھا اوروہ ہمارے ادب میں نمایاں مقام حاصل رکھتے تھے۔ 1947ء سے پہلے اور اس کے بعد کے منٹو کے ناول لحاف اور بھوک مقبول تھے۔ 1947ء سے پہلے کرشن چندر مقبول افسانہ نگار لیکن اس کے بعد بیدی اور منٹو نے تیزی سے شہرت حاصل کی۔ممتاز ادیب و دانشور مسعود اشعر نے اپنے مقالے ”منٹو اور سماجی تبدیلیاں“ میں کہا کہ آج ہم جس سماج میں حصہ لے رہے ہیں کیا وہ منٹو کی باتوں کو تسلیم کر لے گا، وہ جس طرح سے ہمارے معاشرے کی چیر پھاڑ کرتا ہے کیا ہم اسے قبول کر لیں گے۔ سعادت حسن منٹو نے جس ملے جلے معاشرے میں لکھنا شروع کیا وہاں ہندو، سکھ ، مسلمان اور دیگر ذاتوں کے لوگ شامل تھے۔ سعادت حسن منٹو کو برا بھلا بھی کہا گیا لیکن وہ معاشرے کی سچائیوں کو لکھنے سے بعض نہیں آیا،قیام پاکستان کے وقت ہم دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ رکھتے تھے لیکن یہ بات اب ہمارے درمیان نظر ہی نہیں آتی۔

مزید خبریں :