بلاگ
Time 28 دسمبر ، 2022

نیا سال، نئی امیدیں، نیا امتحان

سال 2022ء اپنی تمام تر ناکامیوں، سیاسی و معاشی عدم استحکام کے ساتھ اختتام کے قریب ہے۔ ایک اپنی کرکٹ ٹیم سے کچھ امیدیں تھیں تو انہوں نے بھی مایوس کیا اور شکست کے نئے ریکارڈ قائم کئے، ابھی سال ختم ہونے کو ہی ہے کہ دہشت گردی کی نئی لہر نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے، ایک یہی کیا چین سے آنے والی ’کورونا‘ کی خبریں بھی پریشان کن ہیں۔ ویسے تو ہم نے تاریخ سے واحد سبق یہی سیکھا کہ کچھ نہیں سیکھنا لیکن کیا نئے سال میں ہم کچھ بہتر کرسکتے ہیں ؟ یہ سوال صرف حکمرانوں کیلئے نہیں سب کیلئے ہے۔

دسمبر کا مہینہ ویسے بھی ہمارے لئے خاصہ تکلیف دہ ہوتا ہے، کیا کچھ اس ماہ نہیں ہو؟ا سقوط ڈھاکہ سے لے کر آرمی پبلک اسکول، پشاور کے 150بچوں اور ٹیچرز کے قتل عام تک اور پھر ابھی کل ہی تو ہم نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کی 15ویں برسی منائی ہے اس حقیقت کے ساتھ کہ نہ وہ سازش بے نقاب ہوسکی اور نہ ہی اس کے قاتل گرفتار ہوسکے البتہ ممکنہ کرداروں سے جن پر انہوں نے خود شک کیا تھا ’اپنوں‘ نے ہی سمجھوتہ کرلیا۔ بہرحال جن سوالوں کے جواب 50 سال بعد نہ مل سکے 15سال بعد کیسے ملیں گے؟ مطلب سقوط ڈھاکہ سے بے نظیر کی شہادت تک۔

نیا سال ہمیشہ نئی امیدیں لے کر نمودار ہوتا ہے۔ یہ کئی لحاظ سے اہم سال ہے، اس کو ’استحکام جمہوریت‘ کا سال قرار دینا چاہئے، ایک دوسرے کی سیاسی حقیقت تسلیم کرکے پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بیٹھیں اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کریں۔ جمہوریت میں ’قبولیت‘ کوئی چیز نہیں ہوتی ’مقبولیت‘ کے آگے سرتسلیم خم ہونا چاہئے، یہ وقت وقت کی بات ہے سال 2021ء ختم ہوا اور 2022ء شروع ہوا تو ملک کا سیاسی نقشہ کچھ اور تھا۔ وزیراعظم عمران خان تھے جو تیزی سے غیر مقبول ہورہے تھے اور مسلسل ضمنی الیکشن ہار رہے تھے، وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نہ صرف بھرپور دفاع کرتے تھے بلکہ اپوزیشن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ان دونوں پر الزامات اور سیاست میں مداخلت کو مسترد کرتے تھے۔

پھر وقت نے پلٹا کھایا اور مارچ 2022ء میں عمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آگئی، انہوں نے اپنے ساتھیوں اور حلیفوں کو یقین دلایا کہ تحریک ناکام ہوگی مگر پھر انہیں احساس ہونے لگا کہ معاملات گڑبڑ ہیں۔ جس دن انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا اس سے ایک رات پہلے صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے انہیں ٹیلیفون کرکے اپنے فیصلے پر نظرثانی کا مشورہ دیا مگر کپتان نہ مانا اور امریکی مداخلت اور سازش کے بیانیے کو بنیاد بناکر نہ صرف اپنی توپوں کا رخ امریکہ کی طرف موڑ دیا بلکہ اسمبلیوں سے باہر آکر ’جہاد‘ کا اعلان کردیا اور ہدف تنقید اسٹیبلشمنٹ کو بھی بنانا شروع کردیا۔ ان کے مطالبات میں موجودہ حکومت کا خاتمہ، نئے عام انتخابات، نئے الیکشن کمیشن کے تحت کرانا شامل تھا جس کیلئے انہوں نے 25؍مئی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ اس پورے عمل سے پاکستان تحریک انصاف جو اب تک 2021ء میں غیر مقبولیت میں تیزی سے اوپر جارہی تھی، اسے بریک لگ گیا اور مقبولیت کا گراف اوپر جانے لگا۔

یہ وہ مرحلہ تھا جب پی ڈی ایم کے ایک حلقہ احباب میں جن میں خود سابق وزیراعظم نوازشریف شامل تھے، یہ فیصلہ ہوا کہ الیکشن میں جانا چاہئے حکومت چلانا مشکل ہے۔ چند دن پہلے صدر پاکستان عارف علوی صاحب سے ایک نشست میں گفتگو کرتے ہوئے اندازہ ہی نہیں تصدیق بھی ہوگئی کہ اگر عمران خان 25؍مئی کے لانگ مارچ کو مؤخر کردیتے تو نئے الیکشن پر سمجھوتہ ہونے جارہا تھا۔اب پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنی سیاسی ناکامیوں کو ’سیاسی قیمت‘ ادا کرنے سے تعبیر کرتی ہیں حالانکہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد اگر ایک عبوری حکومت کے تحت نئے الیکشن ہوجاتے تو آج حکمران اتحاد انتخابات سے راہ فرار اختیار نہ کررہا ہوتا، وہ اپریل میں بہت بہتر پوزیشن میں تھے۔

ایک اور بات جو سال 2022ء میں اب ثابت ہے، وہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کا ’سیاسی کردار‘ ہے۔ عمران خان صاحب آدھا سچ بول رہے ہیں جب وہ اپنے آپ کو بے اختیار وزیراعظم اور جنرل باجوہ پرمسلسل مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں ، نیب اور الیکشن کمیشن پر جانبداری کا۔ میں نے عارف علوی صاحب سے پوچھا اگر یہ سارے الزامات درست ہیں اور عمران کو کام نہیں کرنے دیا جارہا تھا، ہر چیز میں مداخلت ہورہی تھی تو کیا کبھی وزیراعظم نے انہیں برطرف کرنے کا عندیہ دیا؟ میاں صاحب نے صحیح یا غلط کم از کم جنرل جہانگیر کرامت کو بلاکر سوال تو اٹھایا جس پر انہیں استعفیٰ دینا پڑا، جنرل پرویز مشرف کو برطرف کردیا۔ علوی صاحب کا جواب تھا ’نہیں‘ ایسا خیال کبھی نہیں آیا۔

 یہ بات بھی اب ثابت ہےکہ 2018ء میں جنرل باجوہ نے ہی الیکشن میں عمران کی حکومت بنانے میں مدد کی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد ناکام کروانے میں مدد کی تو پورا سچ شاید یہی ہے کہ عمران کو اگر وزیراعظم کے عہدہ سے ہٹانے میں جنرل باجوہ کا کردار ہے تو انہیں اس منصب پر بٹھانے میں بھی انہی کا کردار ہے۔ اگر بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) کو کپتان کی حمایت کرنے میں ان کا کردار ہے تو پھر شاید انہی سے کہا گیا کہ بس اب آپ لوگ الگ ہوجائیں۔ چوہدریوں میں بہرحال اختلاف ہوگیا مگر پھر بھی وہ جنرل باجوہ کے احسان کو یاد کرتے ہیں۔

نیا سال نئی امیدیں ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں۔ یہ صرف الیکشن کا سال ہی نہیں 1973ء کے متفقہ آئین کی گولڈن جوبلی کا سال بھی ہے۔ یاد رکھیں اس آئین کو کئی پیوند لگے، کئی ٹیکے لگے، اعلیٰ ترین عدلیہ نے جس کو اس کا تحفظ کرنا تھا، ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت اسے توڑنے والوں کو قانونی کہا ،جائز قرار دیا اور بنانے والے کو ’جوڈیشل مرڈر‘ کے ذریعہ پھانسی دے دی۔

اس آئین نے ایک سمت دی، نظام دیا، آگے بڑھنے کا راستہ بتایا، اگر اس تاریخی دستاویز کو کسی آمر نے ’کاغذ‘ کا ٹکڑا کہا تو وہ آمرامر نہیں ہوا، بنانے والوں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ان تمام اکابر کو خراج تحسین پیش کرنے کا وقت ہے جنہوں نے نظریات کو بالاتر رکھ کرایک آئین پر اتفاق کیا۔ اس آئین پر عمل نہیں ہوا اس لئے سیاست کو آمروں نے ’سیاسی اسٹاک مارکیٹ‘ میں تبدیل کردیا۔ اب الیکشن سے پہلے وزیراعظم کیلئے ’ٹینڈر‘ کھلتا ہے اور پھر قبولیت ہوتی ہے۔ جمہوریت مقبولیت کا نام ہے قبولیت کا نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔