04 جنوری ، 2023
شہری سندھ کی سیاست میں ’مہاجر فیکٹر‘ ہمیشہ سے اہم رہا ہے مگر سال 2013ء کے انتخابات کے بعد سے اس رجحان میں تبدیلی آئی اور 2018 میں پہلی بار کراچی نے ایک ایسی جماعت کو مینڈیٹ دیا جس نے وفاق میں حکومت بنائی جس کی ایک بڑی وجہ 22؍اگست 2016 کے بعد سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی تقسیم در تقسیم اور اردو بولنے والوں کے مقابلے میں دوسری زبان بولنے والوں کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ تھا، تیسری وجہ خود ماضی میں اس جماعت کا ساتھ دینے والوں کا اس پر سے اعتماد ختم ہونا تھا اور اس کے ساتھ پاکستان کے طاقتور حلقوں کا بدلتا بیانیہ۔
جس جماعت کو اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ پاکستان تحریک انصاف ہے جس نے 2013کے الیکشن میں 8لاکھ ووٹ لئے تھےگو کہ ایم این اے کی ایک نشست جیتی مگر 2018میں 16اور شہری سندھ کی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری ۔2018کے مقابلے میں 2023میں محض یہ فرق آیا ہے کہ اُس وقت پی ٹی آئی کو اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی اب صورتحال ذرا مختلف ہے۔
البتہ اپریل 2022 کے بعد سے اس جماعت نے اپنی غیرمقبولیت کو عدم اعتماد کی تحریک کے بعد مقبولیت میں تبدیل کردیا ہے اور ماضی کے مقابلے میں اس وقت ایم کیو ایم اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کا اپنا ووٹ بینک اب تین یا چار حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے جن میں پی ٹی آئی، تحریک لبیک اور جماعت اسلامی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی اپنی مقبولیت خود اپنے حلقہ احباب میں سوالیہ نشان ہے جس کی وجہ وہ خاموش ووٹر ہے جو آج بھی بانی متحدہ الطاف حسین سے جڑا ہوا ہے۔
بظاہر اداروں کا رویہ ایم کیو ایم (لندن) کے بارے میں اب بھی خاصہ سخت ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ماضی کی ایم کیو ایم اور الطاف کی ہر نشانی کو ختم کرنا چاہتے ہیں ،چاہے وہ عزیزآباد میں ان کی رہائش گاہ90ہو ، آفس خورشید میموریل ہال ہو۔ جناح پارک ہو یا یادگار ِشہدا، یہی نہیں، ’نیو‘ ایم کیو ایم پراجیکٹ میں یہ شرائط شامل ہیں کہ رابطہ کمیٹی ختم کی جائے گی ،ماضی کی طرح کوئی تنظیمی سیکٹر،یونٹ انچارج نہیں ہوں گے نہ ہی الخدمت فائونڈیشن کو ماضی کی طرح چندہ جمع کرنے کی اجازت ہوگی۔
یہ ایک مختصر سا خلاصہ ہے نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کا ،وہ بھی شاید اس لئے لایا جارہا ہے کیونکہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے معاملات تا حال کشیدہ ہیں مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اداروں میں پریشانی صرف پی ٹی آئی کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ چند ماہ قبل بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے نتائج سے اس کا امکان بڑھ گیا ہے کہ شہری سندھ بشمول سکھر،میرپور خاص اور حیدرآباد میں بھی پی پی پی کےمیئرمنتخب ہوسکتے ہیں۔ 15؍جنوری کو اگر بلدیاتی الیکشن ہو جاتے ہیں تو مقابلہ پی ٹی آئی، پی پی پی اور جماعت اسلامی میں ہونے کا زیادہ امکان ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے انضمام کی صورت میں بھی انہیں ’لندن‘ کی مزاحمت کا سامنا رہے گا۔
پی پی پی، جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں بلدیاتی الیکشن سائنس کا زیادہ تجربہ حاصل ہے مگر پی ٹی آئی کا ووٹر خاصہ متحرک ہے اور خود عمران خان الیکشن مہم کیلئے کراچی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امکان اس بات کا ہے کہ یوسی کے الیکشن کے بعد کسی دو جماعتوں کے اتحاد سے مئیراور ڈپٹی مئیر کا انتخاب ممکن ہوگا، کلین سویپ کے امکانات کم ہیں۔ البتہ مئیر کے لئے اب تک واحد امیدوار جماعت کے حافظ نعیم الرحمٰن ہیں جبکہ پی ٹی آئی میں مقابلہ فردوس شمیم نقوی اور خرم شیرزمان میں ہے مگر کپتان کسی تیسرے کو بھی نامزد کرسکتے ہیں۔ پی پی پی کے امیدوار کا اعلان یو سی الیکشن کے بعد ہوگا۔
رہ گئی بات نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کی ،اس کی اصل وجہ ماضی کے پراجیکٹ پاک سر زمین پارٹی(پی ایس پی) کی 2016کے بعد سے انتخابی ناکامی ہے، وہ اسی سال فروری میں مائنس الطاف اور مائنس ایم کیو ایم فارمولہ لائے تھے۔ اداروں کے اندر اب بھی سابق مئیر اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر ان کا اینٹی الطاف بیانیہ عوامی پذیرائی حاصل نہ کرسکا، دوسری طرف 22؍اگست سے پیدا شدہ صورتحال کو طاقتور حلقوں نے اس بے دردی سے استعمال کیا جس سے ایم کیو ایم (لندن) اور الطاف کیلئے ہمدردیاں زیادہ پیدا ہونے لگیں۔
نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ کی ایک کوشش کوئی دو سال پہلے ہوئی تھی مگر بہت سے رہنماؤں کی ’انا‘ آڑے آگئی۔ ایک وجہ تنازع عامر خان رہے ہیں جس کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ ان کی سیاست کی ابتدا آفاق احمد کے ساتھ الطاف حسین کے مضبوط ساتھیوں کے ساتھ ہوئی۔ وہ دونوں کراچی کے زونل انچارچ تھے ۔
1991 میں ایم کیو ایم کی پہلی بڑی تقسیم کے نتیجے میں ان دونوں سمیت کوئی چار پانچ لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا گیامگر پراجیکٹ ایم کیو ایم (حقیقی) بھی کامیاب نہیں ہوسکا جس کے بارے میں ایک بار خود اس کے سربراہ آفاق احمد نے کہا تھا کہ انہیں سیاست کرنے کی اجازت نہیں تھی بس ادارے چاہتے تھے کہ ہم اپنا ’علاقہ‘ اپنے پاس رکھیں یعنی لانڈھی، کورنگی۔
22؍اگست کے بعد عامر خان ایم کیو ایم (پاکستان) کے نمبر 2ہوگئے مگر نیو ایم کیو ایم پراجیکٹ میں انضمام کی صورت میں وہ اس سے باہر رہیں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس نئے پراجیکٹ کے روح رواں گورنر کامران ٹیسوری ہیں جو 2016 میں وجہ تنازع بنے۔
کہتے ہیں انسان کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب آپ کے پاس اختیار آجائے اگر آپ نے وہ ضائع کردیا تو وہ پلٹ کر نہیں آتا۔ یہی ایم کیو ایم کی کہانی ہے جن زبان بولنے والوں کی طاقت علم و ادب اور تہذیب رہی ہو ان کو اگر قائد ’’زیور بیچ کر ہتھیار خریدنے‘‘ کا مشورہ دیں گے تو پھر وہی ہوگا جو ہوا۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، علاقے اور محلے میں موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے راتوں رات امیر ہو جائیں تو یہی ہوتا ہے جو ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔