Time 22 جنوری ، 2023
پاکستان

ریاست کی پوری تیاری ہےکہ راؤ انوار کو بری کرایا جائے: وکیل نقیب قتل کیس

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

کراچی میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ کے وکیل اور سماجی رہنما جبران ناصر نے الزام لگایا ہےکہ  ریاست کی پوری تیاری ہےکہ راؤ انوار  اور  ٹیم کو بری کرایا جائے۔

کراچی پریس کے باہرکراچی گرینڈ جرگہ کے عہدیداران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جبران ناصرکا کہنا تھا کہ نقیب اللہ کو ناجائز قتل ہوئے پانچ سال گزر گئے، 23 جنوری (پیر)کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں کیس کا فیصلہ متوقع ہے۔

جبران ناصرکا کہنا تھا کہ کیس میں نامزد7 پولیس افسران اب بھی مفرور ہیں، ریاست کی پوری تیاری ہےکہ راؤ انوار اور ٹیم کو بری کرایا جائے، ان لوگوں کے خلاف تمام ریکارڈ بھی ختم کیے گئے، راؤ انوار کو اتنی سہولتیں کیوں فراہم کیں گئیں؟ اس کے اپنے ہی گھر کو سب جیل بنادیا گیا۔

مقتول نقیب اللہ کے اہلخانہ کے وکیل کا مزیدکہنا تھا کہ راؤ انوار ہرکسی کا لاڈلہ ہے۔

اس موقع پر نقیب اللہ محسود کے بھائی عالم شیر محسود نےکہا کہ 5 سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن ہمیں انصاف نہیں ملا، ہمارے ساتھ بڑے بڑے وعدہ کیےگئے۔

عالم شیر محسود نےکہا کہ والد نے مرنے سے قبل وصیت کی تھی کہ آخری دم تک ہم انصاف مانگتے رہیں، ہم ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں دوبارہ جائیں گے، عدالتوں کو اپنا کام کرنا ہے اور ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔

خیال رہے کہ 14 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

فریقین کے وکلا کے حتمی دلائل سننےکے بعد انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا،کیس کا فیصلہ 23 جنوری کو سنایا جائےگا۔

کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر ملزمان نامزد ہیں، ملزمان کے خلاف سچل تھانے میں مقدمہ درج ہے۔

نقیب اللہ محسود و دیگر کو 13 جنوری 2018 کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا ۔

نقیب اللہ قتل کیس کا پسِ منظر

یاد رہےکہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری 2018 کو 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسودکو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنےکا دعویٰ کرتے ہوئےکہا تھا کہ مقتول کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے تھا۔

تاہم نقیب کے اہلخانہ نے راؤ انوار کے پولیس مقابلےکو جعلی قرار دیا تھا۔

بعدازاں سوشل میڈیا اور میڈیا پر معاملہ اٹھنے کے بعد اس وقت کے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثنااللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی تھی۔

تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس پارٹی کے سربراہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنےکی سفارش کی تھی جس پر انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا اور کیس میں ملوث پولیس پارٹی کو بھی معطل کردیا گیا تھا۔

نقیب اللہ قتل کیس کے بعد راؤ انوار اچانک منظر سے غائب ہوگئے تھے جبکہ ایک مرتبہ ان کی اسلام آباد ائیرپورٹ سے مبینہ طور پر بیرون ملک فرار کی کوشش بھی ناکام ہوئی۔

اس دوران سپریم کورٹ نے جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا ازخود نوٹس بھی لیا جس کے بعد کچھ عرصے تک روپوش رہنےکے بعد 21 مارچ 2018 کو وہ اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے جہاں عدالت کے حکم پر انہیں گرفتار کرکےکراچی پہنچا دیا گیا۔

10 جولائی 2018 کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کی درخواست ضمانت منظور کی تھی جس کے بعد سے وہ ضمانت پر رہاہیں۔

5 اپریل 2018 کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں نقیب اللہ محسود کے والد سے ملاقات کی تھی اور تعزیت کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا کہ پاک فوج نقیب اللہ کے لیے انصاف کے حصول کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی۔

2 دسمبر 2019 کو نقیب اللہ محسود کے والد راولپنڈی کے اسپتال میں انتقال کرگئے تھے، وہ کینسرکے عارضے میں مبتلا تھے۔

مزید خبریں :