27 جنوری ، 2023
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ڈاکٹر مہرین بلوچ کی بچیوں کی بازیابی کے کیس میں ریمارکس دیے کہ پنجاب اورسندھ کو پولیس مداخلت کے معاملے میں بہتری لانا ہوگی جبکہ خیبرپختونخوا پولیس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی۔
سپریم کورٹ میں کراچی کی ڈاکٹر مہرین بلوچ کی دو بچیوں کی بازیابی کے کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
سپریم کورٹ نے پانچ سال سے بچیوں کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کیا اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ بااثر افراد نے نہ صرفبچیوں کے اغوا میں مدد کی بلکہ ملزم کو تحفظ بھی دیا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ کے پی پولیس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی، بلوچستان میں بھی صورتحال پہلے سے کافی بہتر ہے، پنجاب اور سندھ کو پولیس مداخلت کے معاملے میں بہتری لانا ہوگی، ملک کے خلاف جاسوسی کا کیس نہیں جو حساس اداروں کو شامل کرنا پڑا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ تسلیم کریں انتظامیہ میں اہلیت ہی نہیں کہ شہریوں کی حفاظت کر سکے، شہریوں کے لاپتہ ہونے پر کسی کو تو جوابدہ ہونا ہی پڑے گا، 6 سال سے بچیاں غائب ہیں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، نام بتائیں کون ذمہ دار ہے اس کیخلاف کارروائی کرینگے، کسی کو تو جوابدہ ہونا ہی پڑے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ریاستی اداروں کے خلاف کارروائی کرنا اچھا عمل نہیں ہوگا۔ چیف سیکرٹری سندھ نے کہاکہ پانچ سال سے بچیوں کی بازیابی نہ ہونا پولیس کی ناکامی ہے، جے آئی ٹی میں آئی بی کے ساتھ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو بھی شامل کیا ہے، اعلیٰ ترین سطح پر بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سوموٹو کا اختیار اس لیے استعمال نہیں کررہے کہ ادارے خود کام کریں، عدالت ریاستی اداروں کو مضبوط کرنا چاہتی ہے، موجودہ سیاسی حالات میں آئینی وحکومتی ادارے صرف قانون کے مطابق کام کریں، سوموٹو نہیں لے رہے لیکن بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے۔
عدالت نے سندھ پولیس کو ایک ماہ میں بچیوں کی بازیابی کا حکم دے دیا۔