15 فروری ، 2023
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ واضح کہہ چکے عدلیہ نہ حکومت کرناچاہتی ہے اور نہ ہی کرے گی۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا آرٹیکل 184 تھری کے استعمال سے قبل درخواست گزار کو ہائیکورٹ میں جانا چاہیے تھا؟ نیب کیس کو سنتے ہوئے کافی وقت گزر چکا، اب تک نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟ بنیادی حقوق پر عدالت کو مطمئن نہیں کیا گیا تو مفاد عامہ کا سوال تو بہت بعد میں آئے گا۔
معزز جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ نیب کو ختم کر دے تو درخواستگزار اس کی بحالی کے لیے آ سکتا ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر عدالت قانون سازی کالعدم یا بحال کرنے لگی تو پارلیمنٹ غیر فعال ہو جائے گی، اگر نیب ترامیم اسلامی اصولوں کے منافی ہیں تو اس کا تعین وفاقی شرعی عدالت نے کرنا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کرپشن کا تعلق قانون کے نفاذ، صاف شفاف حکومت اور سماجی نظام سے ہے، بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے گڈ گورننس ضروری ہے اور گڈ گورننس کا مطلب ہے کہ ملکی قوانین ہر شخص پر واضح ہونے چاہیے ہیں، اگر حکومت ٹھیک ہو گی تو رات کو باہر نکلتے کوئی خوفزدہ نہیں ہو گا، اگر گڈ گورننس ہو گی تو کسی کو اپنے تحفظ کے لیے ہتھیار ساتھ لے کر نہیں گھومنے پڑیں گے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ واٹس ایپ پر میسجز سے لوگوں کے ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے پیسے ہتھیائے جا رہے ہیں، اگر سسٹم ایماندار ہو گا تو کسی کو سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوگی، آئین پاکستان کے تحت زندہ رہنے کے حق کی تعمیل لازم ہے، پولیس میں صلاحیت کا فقدان اصل میں شہریوں کے زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واضح کہہ چکے ہیں عدلیہ حکومت کرنا چاہتی ہے نہ ہی کرے گی، قدیم معاشرے میں زندہ رہنے کا حق محض روٹی، کپڑا اور مکان سے پورا ہوتا ہو گا، آج کے زمانے میں زندہ رہنے کے لیے تعلیم اور صحت سمیت سہولیات لازم ہیں، کرپشن سے عام شہری کے زندہ رہنے کا حق زخمی ہوا ہے۔
معزز چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ کئی سو نیب کیسز عدالتوں سے واپس ہو رہے ہیں، نیب ترامیم نے زیر التوا کیسز کا دروازہ بند کر دیا ہے، نیب ترامیم کو 8 ماہ ہو گئے مگر ان کے باقاعدہ نفاذ یا کیسز کی منتقلی کا طریقہ کار نہیں بنایا جا سکا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ حکومت کے پاس اگر نیب قانون میں الفاظ بدلنے کا وقت ہے تو کیسز کی منتقلی کا طریقہ کار بنانے کا کیوں نہیں ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر احتساب عدالت کے منتقل کیسز کو اینٹی کرپشن دائرہ اختیار سے خارج قرار دے تو کیا ہو گا؟ اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ نیب قانون سے پہلے بھی 50 سال ملک میں کرپشن کے کیسز نمٹائے گئے تھے۔
کیس کی مزید سماعت کل ہو گی۔