20 فروری ، 2023
لاہور ہائیکورٹ نے تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی جبکہ تھانہ سیکرٹریٹ میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی گئی۔
عدالت نے عمران خان کو پیش ہونے کے لیے شام 5 بجے کا وقت دیا تھا تاہم عمران خان تقریباً 5 بجکر 50 منٹ پر ہائی کورٹ کے احاطے میں پہنچے۔ احاطے میں عمران خان کافی دیر تک موجود رہے، اس دوران تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عدالت سے درخواست کی کہ عمران خان کی حاضری قبول کی جائے، انہیں وہیل چیئر پر احاطے سے کمرہ عدالت میں لانا ممکن نہیں تاہم عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی اور عمران خان کو ہر صورت عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
بعد ازاں شام 7 بجکر 30 منٹ کے قریب عمران خان گاڑی سے نکلے اور خود چل کر جسٹس باقر نجفی کے کمرہ عدالت میں پہنچے اور عدالت نے انہیں 3 مارچ تک حفاظتی ضمانت دے دی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پولیس پارٹی پرحملہ اور سری نگز ہائی وے بلاک کرنے پر تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے اس مقدمے میں 3 مارچ تک عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کی۔
اسلام آباد کے تھانہ سنگجانی میں عمران خان پر توڑ پھوڑ کرنے اور پولیس پر حملے کا مقدمہ درج ہے۔ مقدمے کی تفتیش میں شمولیت کی یقین دہانی پر لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے عدالت کو بتایا ہے کہ 28 فروری کو ان کی ٹانگ کے ایکسرے ہونےہیں۔
بنیچ کے روبرو پیشی کے موقع پر عمران خان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ مجھے دو ہفتے چاہئیں، کوئی جھٹکا لگ گیا تو دوبارہ کھڑے ہونےمیں 3 ماہ لگ جائیں گے، ایک گھنٹے تک گاڑی میں بیٹھا رہا ہوں، عدالتوں کا احترام کرتا ہوں، ہماری پارٹی کا نام بھی انصاف ہے۔
تھانہ سیکرٹریٹ میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست میں عمران خان کے مختلف دستخط کے معاملے کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے کی جبکہ تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جج علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے تھانہ سیکرٹریٹ میں درج مقدمے میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت کا معاملہ عمران خان کی جانب سے درخواست ضمانت واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست نمٹانے کے بعد عمران خان کو کمرہ عدالت میں بیٹھے رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ خان صاحب، آپ کی درخواست پر دستخط مختلف ہیں۔
اس پر عمران خان نے کہا پہلی ضمانت میرے دستخط اور منظوری کے بغیر فائل ہوئی، مجھے افسوس ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا آپ کو احتیاط کرنی چاہیے تھی جس پر عمران خان بولے کہ جیسے ہی پتا چلا میں نے اظہر صدیق کو درخواست واپس لینے کا کہا، پہلی درخواست ضمانت میری منظوری کے بغیر فائل ہوئی تھی۔
بعد ازاں عمران خان ہائیکورٹ سے اپنی رہائش گاہ زمان پارک پہنچ گئے۔
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے حفاظتی ضمانت کی درخواست اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت کے لیے عمران خان کو آج 2 بجے طلب کیا تھا۔
2 بجےکیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ 2 بجےکا وقت تھا،کہاں ہیں عمران خان؟عمران خان کے وکلا نے بتایا کہ وہ راستے میں ہیں،کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے، سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نےکہا کہ سکیورٹی کا مسئلہ میں نے حل نہیں کرنا، سماعت کچھ دیرکے لیے ملتوی کر رہے ہیں، عدالت میں رش بھی کم کریں۔
وقفےکے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست ان کے دستخط سےفائل نہیں ہوئی تھی۔
عدالت نےکہا کہ اگر عمران خان نے یہ درخواست دائر نہیں کی تو واپس کیسے لے سکتے ہیں؟ یہ نہیں ہوتا کہ سماعت تھوڑی تھوڑی دیر بعد ملتوی ہوتی رہے۔
وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ آپ درخواست خارج کر دیں، اس پر عدالت نے کہا کہ سماعت پھر بھی چلےگی، آپ کا رویہ معذرت خواہانہ ہونا چاہیے تھا، میں آپ کو اظہار وجوہ کا نوٹس دوں گا جواب تیارکرتے رہیں۔
وکیل کا حفاظتی ضمانت کی درخواست پر عمران خان کے دستخط نہ ہونےکا اعتراف
وکیل خواجہ طارق رحیم نے حفاظتی ضمانت کی درخواست پر عمران خان کے دستخط نہ ہونےکا اعتراف کرتے ہوئےکہا کہ ہم درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ یہ تاثر آرہا ہےکہ عمران خان پیش نہیں ہونا چاہتے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ میں عمران خان کو اظہار وجوہ کا نوٹس کرتا ہوں اور 3 ہفتےکی تاریخ ڈال دیتا ہوں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نےکہا کہ عمران خان کل ہی آجاتےہیں، اس جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
عمران خان لیڈر ہیں، انہیں رول ماڈل ہی رہنا چاہیے: عدالت کے ریمارکس
عدالت نےکہا کہ اتنی جلدی نہیں ہے، اب حکم لکھوانے دیں، آپ قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں، عمران خان لیڈر ہیں، رول ماڈل ہیں، انہیں رول ماڈل ہی رہنا چاہیے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نےکہا کہ 5 بجے عدالت آجاتے ہیں یہ عمران خان کے لیے بھی اچھا ہے، اس پر عدالت نےکہا کہ عدالت نے پہلے ہی بہت رعایت دی ہے۔
وکیل نے کہا کہ 5 بجے عمران خان ادھر ہوں گے۔
عدالت نے سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کرتے ہوئے عمران خان کو 5 بجے پیش ہونےکا آخری موقع دیا تھا۔
خیال رہے کہ اکتوبر 2022 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیراعظم عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل قرار دیا تو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کے باہر اور ملک کے دیگر شہروں میں مظاہرے شروع کرد یے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے کارکنوں سے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی تھی، اس دوران اسلام آباد، پشاور اور کراچی میں مظاہرین اور پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
اس معاملے میں عمران خان کیخلاف تھانہ سنگجانی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اس میں انسداد دہشتگردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی تھی۔
اس کیس کی سماعت اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جاری ہے جس نے اکتوبر 2022 میں عمران خان کو ضمانت قبل از گرفتاری دی تھی اور عمران خان کو عدالت میں طلب کیا تھا تاہم بار بار طلبی کے باوجود عمران خان عدالت میں پیش نہ ہوئے جس پر ان کی ضمانت منسوخ کردی گئی تھی اور انہوں نے حفاظتی ضمانت کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔