بلاگ
Time 22 فروری ، 2023

اگر عارف علوی صدر نہ ہوتے

کراچی والوں کیلئے چونکہ گلی محلوں کے ’’حصار‘‘ کوئی نئی بات نہیں ہے سالہا سال سے کبھی کسی دہشت گرد کی گرفتاری کیلئے تو کبھی کسی سیاسی کارکن کو پکڑنا ہو تو علاقہ بند کر دیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ عمل رات کو ہوتا ۔

مگر12بجے دن سے ڈیفنس کےاس محلے میں پولیس کی گاڑیاں آنی شروع ہوئیں اور کچھ فاصلے پر پولیس والے کھڑے ہونا شروع ہوئے تو لوگوں کو تشویش ہونے لگی کہ نہ جانے کون سا دہشت گرد کہاں چھپا ہوا ہے۔ پھر یہ تعداد بڑھنے لگی اور اب آنے جانےوالوں کیلئے وہاں سے نکلنا یا اندر جانا مشکل ہو رہا تھا، ساری نظریں ایک گھر پر مرکوزتھیں کہ اس کےگرد گھیرا تنگ ہو چکا تھا۔ اس سارے عمل میں کوئی ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا ہو گا۔

لو جی اب کمانڈوز بھی آ گئے اور وہ گھر کے اندر بھی داخل ہو گئے پھر ایک کمانڈو چھت پر ہتھیار سنبھالے کھڑا نظر آیا۔ کچھ محلے والوں نے یقیناً سوچا ہو گا کہ آخر ہو کیا رہا ہے، ہم کتنے غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ اب محلے والے خود بھی باہر نہیں آسکتے تھے تو انہیں انداز ہ نہیں تھا کہ ماجرا کیا ہے۔

اب ذرا اس گھر کے اندر کا حال بھی جان لیں۔ سیکورٹی والوں نے تفتیش شروع کر دی کہ کون کہاں بیٹھے گا جب تک کارروائی مکمل نہ ہو جائے۔ پھر انہوں نے ایک عدد ’’بسکٹ‘‘ کو اپنی تحویل میں لے لیا حالانکہ منی بجٹ کے بعد بسکٹ ویسے بھی مہنگے ہو گئے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا قصور ہے تو جواب ملا اس کو ہم 72 گھنٹے حبس بے جا، میں یا یوں کہیں حفاظتی تحویل میں رکھیں گے تاکہ اگر اس بسکٹ کے نتیجے میں کوئی حادثہ ہو جائے تو اس سے تفتیش کا آغاز کریں۔ پھر اس پانی کے بھی سیمپل لئے گئے جس سے چائے بنی تھی۔ گھنٹہ بھر میں گھر کے اندر اور باہر کی سیکورٹی مکمل ہوئی تو کسی افسر نے موبائل پر کسی کو اطلاع دی ۔ پھر گاڑیوں کی آمد شروع ہو گئی۔

اس سارے منظر نامے کا حال میں نے سنا تو مجھے نہ جانےکیوں اپنے عارف علوی یاد آ گئے جو اکثر اسی طرح علاقوں کے حصار اور سیکورٹی پر سخت احتجاج کرتے تھے۔ میں سوچنے لگا کہ اگر وہ آج کراچی میں ہوتے تو اپنے ساتھیوں سمیت مظاہرہ کر رہے ہوتے۔ مگر یہ سارے انتظامات تو صدر پاکستان عارف علوی صاحب کیلئے کئے جا رہے تھے۔ وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکار، صدا کار، ہدایت کار ضیا محی الدین کی وفات پر تعزیت کیلئے آ رہے تھے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اگر ضیا صاحب زندہ ہوتے اور علوی صاحب ملاقات کیلئے آ رہے ہوتے تو وہ معذرت کر لیتے کیونکہ چند سال پہلے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ان سے ملنے آ رہے تھے مگرآنے میں تاخیر اور سیکورٹی دیکھ کر ضیا صاحب نے معذرت کر لی تھی۔ پرویز مشرف، ضیاصاحب کے مزاج سے واقف تھے کہ وہ وقت کے کتنے پابند ہیں۔ ایک بار ایوان صدر سے فون آیا تو مشرف صاحب کی ہدایت تھی کہ جب تک وہ لائن پر نہ آ جائیں ضیا صاحب کو فون پر نہ بلانا۔

ہمارا ’’سیکورٹی نامہ‘‘ بھی عجب رہا ہے پروٹوکول کسی بادشاہ سے کم نہیں اور حکمرانوں کے گرد سیکورٹی کا ایسا ’’حصار‘‘ قائم کیا جاتا ہے جہاں وہ صدر ،وزیر اعظم یا آرمی چیف کم اور ’’قیدی‘‘ زیادہ لگتے ہیں۔ وہ اس سے باہر ہی نہیں نکل پاتے بلکہ سچ پوچھیں تو اسی سیکورٹی کے نام پر دراصل ان کو عوام سے، جس کے ووٹ سے وہ آتے ہیں ،دور کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ بھی ہماری بھیانک تاریخ کا حصہ ہے کہ اکثر ایسے حادثات میں معاملہ اندر کا ہی ہوتا ہے چاہے وہ جنرل ضیا الحق کا حادثہ ہو یا جنرل مشرف پر دو خودکش حملے، کڑیاں اندر ہی ملتی ہیں۔

اب حال ہی میں کراچی پولیس لائن والا واقعہ دیکھ لیں یا پشاور پولیس لائن کا یا اس طرح کے بے شمار واقعات مگر ہم ہیں کہ اپنے سیکورٹی کے بیانیہ کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں اور سارا شک بسکٹ اور چائے سے شروع کرتے ہیں۔ جب کوئی حادثہ یا سانحہ ہو جاتا ہے تو سیکورٹی پروٹوکول کو درست کیا جاتا ہے عمل کے بجائے ردعمل کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ اصل سیکورٹی ہوتی ہی وہ ہے جو نظر نہ آئے اور اس کی نظریں سب پر ہوں۔اب اگر علوی صاحب خاموشی سے آ کر تعزیت کر کے چلے جاتے تو شاید محلے میں کسی کو پتا بھی نہیں چلتا ۔

اب تو گورنر اور وزرائے اعلیٰ کی سیکورٹی کا بھی کم و بیش یہی حال ہے اور اگر کوئی غلطی سے یا اپنی خواہش سے ذرا عوام سے گھل مل جائے تو اس کی ’’کلاس‘‘ ہو جاتی ہے۔ ایک بار جناب کمال اظفر سندھ کے گورنر بنے تو دوسرے دن رات کو وہ کراچی پریس کلب پہنچ گئے ہم سب حیران تھے۔ گپ شپ ہوئی اور پھر وہ ویسے ہی واپس چلے گئے کچھ عرصہ بعد ملے تو مکمل پروٹوکول تھا میں نے پوچھا کمال صاحب وہ عوامی انداز کہاں گم ہو گیا۔ بولے ’مظہر اس دن کے بعد مجھے ہدایت تھی کہ میں نے کبھی اس طرح نہیں جانا کیونکہ مسئلہ کمال کا نہیں گورنر کے عہدے کا ہے۔

ایسا نہیں ہے ہمارے یہاں چند ایک مثالیں موجود ہیں مثلاً جناب معراج خالد جب نگراں وزیر اعظم بنے تو انہوں نے کم سے کم پروٹوکول لیا لاہور میں فلیٹ میں رہے۔ جناب محمود ہارون اپنی گاڑی میں گورنر ہاؤس خود ڈرائیو کر کے آتے اور جاتے ماسوائے سرکاری تقریبات کے وہ سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتے۔

لکھنا تو مجھے ضیا محی الدین پر تھا مگر پھر میں نے سوچا میری یہ جرأت کہ میں ان کے فن پر لکھوں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آج تک میں نے ان کو جب اردو میں بات کرتے سنا تو انگریزی کا ایک لفظ ادا نہیں ہوا اور جب انگریزی میں گفتگو کرتے تو مجال ہے اردو کا کوئی لفظ زباں پر آ جائے۔ غلط تلفظ انہیں برداشت نہیں تھا۔وقت کے ایسے پابند کہ وہ اس معاشرے کے فرد ہی نہیں لگتے تھے۔ زبان و بیان پر ایسا عبور میں نے تو دیکھا نہ سنا۔

پچھلے چند ماہ عجب گزرے ہیں ابھی تو ہم عمران اسلم کو ہی نہیں بھلا سکے تھےکہ امجد اسلام امجد بھی وارث کو ہمارے لئے چھوڑ کر اور اب ضیا صاحب بھی۔ کوئی ایک سال پہلے ان پر جیو نے ایک پوری سیریز تیار کی تھی کاش وہ ان کی زندگی میں ریلیز ہو جاتی۔ ویسے رہی بات حالات حاضرہ کی تو صدر علوی بڑی خبروں میں ہیں اور پاکستان ادبی اور سیاسی میلوں کی زد میں ہے مگر پھر بھی ایک حبس سا محسوس ہوتا ہے۔

بقول جوش؎

اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ

وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔