بلاگ
Time 26 فروری ، 2023

پاکستان ’’ڈیفالٹ‘‘ ہونے والا ہے؟

جب سے ’’رجیم چینج ‘‘ ہوا ہے پاکستان میں گھر گھر یہ موضوع گفتگو بنا ہوا ہے کہ کیا پاکستان ’’ڈیفالٹ ‘‘ ہونے والا ہے؟ بہت کم لوگوں کو ’’ڈیفالٹ‘‘ کے حقیقی معنوں کا علم ہے بس اتنا معلوم ہے کہ ڈیفالٹ کا مطلب دیوالیہ ہونا ہے لیکن اس بات کا علم نہیں کہ جب کوئی ملک ڈیفالٹ ہو تا ہے تو اس کے اس ملک پر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

 جن ملکوں نے’’ ڈیفالٹ ‘‘کیا ہے ان کی حالت ایک ایسے شخص کی ہوجاتی ہے جس سے کوئی بھی فرد ادھار میں لین دین نہیں کرتا۔ اسی طرح’’ڈیفالٹ ‘‘کرجانے والے ملک کی حالت اس حد تک ناگفتہ ہو جاتی ہے جسے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ۔ بہر حال ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی کا اصرار ہے کہ پاکستان ٹیکنیکل طور پر’’ڈیفالٹ ‘‘ہو چکا ہے صرف مصنوعی طریقوں سے اس کا’’ ڈیفالٹ ‘‘ ہو نا موخر کیا جا رہا ہے۔

 ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور یو کرائن ڈیفالٹ کر گئے تو ان کا کیا بگڑا بلکہ ان کی معیشت بہتر ہوئی ہے ان کی رائے میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان کے ’’ڈیفالٹ‘‘ ہو جانے سے پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا ۔جب سے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار ’’خود ساختہ جلاوطنی‘‘ختم کر کے پاکستان کی معیشت سدھارنے آئے تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیوں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا پایا ۔

 آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ جانے والاوزیر چار ماہ میں کیوں کر شکست خورہ ہوگیا۔ اس کی بھی دلخراش داستان ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی حکومت نے ایک بلین ڈالر امداد حاصل کرنے کے لئے پہلے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات منظور کئے اور پھر سیاسی مقاصد کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی کر کے اسے ایسا ناراض کیا کہ پاکستان کو ناک رگڑ کر آئی ایم ایف کو امداد دینے پرمنا نا پڑا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ اس لئے ناگزیر ہو گیا کیوں کہ پاکستان کو امداد دینے والے دوسرے دوست ممالک نے بھی یہ شرط عائد کر دی کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد اپنی کمٹمنٹ پوری کریں گے اس لئے پاکستان کو’’ ڈیفالٹ ‘‘ سے بچانے کے لئے حکومت آئی ایم ایف کے تمام مطالبات تسلیم کرنے پرآمادہ ہو گئی۔ 

پیٹرول ، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے نے جہاں عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے وہاں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی جس طرح بے توقیری کی گئی اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، خطے کے ممالک میں جس قدر پاکستانی معیشت کی بری حالت ہے کسی اور کی نہیں۔ 

بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان سے ہر روز 50لاکھ ڈالرافغانستان اسمگل ہو کر جا رہے ہوں تو بہ ظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی تمام ضروریات پوری کرنے کا ٹھیکہ لےرکھا ہے، حتیٰ کہ اس کے زرمبادلہ کی کمی پاکستان سے ڈالر اسمگل کر کے پوری کی جا رہی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کی مفلوک الحالی ہے ،اس کی تمام ضروریات پاکستان پوری کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے راستے جانے والا آٹا افغانستان اور روس سے آزاد ہونے والی ریاستوں تک اسمگل ہوکر جاتا ہے اب تو ڈالر کی اسمگلنگ نے منفعت بخش کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ڈالر کی اسمگلنگ نے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کو ملک کی سب سے کم سطح پر لا کھڑا کیا جن اداروں نے اسمگلنگ کو روکنا تھا، وہ اس غیر قانونی کاروبار کا حصہ بن گئے ہیں۔ عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان میں ’’حوالے‘‘ کا کاروبار کہاں ہوتا ہے؟

ایف آئی اے ، نیب اور ایف بی آر ان پر ہاتھ ڈالنے کے لئے تیار نہیں، پاکستان آزاد ہوا تو اس کے پاس پیپر پن تک نہیں تھی لیکن ایک پائی کا مقروض نہیں تھا لیکن پچھلے 75سال کے دوران ہمارے حکمرانوں نے (عمران خان کی حکومت کے خاتمے تک)پاکستان پر51ہزار ارب کے قرضے لاددئیے۔ 1947 سے لے کر2018 ء تک پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 29ہزار 800ارب روپے تھا جس میں عمران خان کی حکومت کے 36ماہ میں24ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، اس طرح مجموعی قرض 45 ہزار ارب روپے ہو گیا۔

 عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو یہ قرض 51ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اس وقت پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے، ہماری برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہونے کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا ہے۔ ہمیں توانائی کے حصول کے لئے بار بار مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک سے ادائیگی موخر کرا ناپڑتی ہے۔ سینیٹر محمد اسحٰاق ڈار جو آئی ایم ایف کے سامنے سر اٹھا کر بات کرتے تھے، آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ،ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے آئی ایم ایف پرو گرام کو’’ خدا حافظ‘‘ کہہ دیا تھا لیکن پاکستان کی معاشی بدحالی اور ڈالر کی اڑان نے انہیں آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا۔

پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے بچانے کے آئی ایم ایف کے حکم پر پاکستان کے عوام کو170ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کےمطابق پاکستان کے بیرونی قرض میں کمی جب کہ اندرونی قرض میں اضافہ ہوا ہے۔نومبر 2022 میں پاکستان پر 17 ہزار 974ارب روپے کا بیرونی قرضہ تھا جو دسمبر 2022 میں کم ہوکر 17 ہزار 880 ارب ہوگیا۔اعدادوشمار کے مطابق پاکستان پر ایک ماہ میں اندرونی قرض میں 186 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ نومبر میں پاکستان کا اندرونی قرض 32 ہزار 930 ارب روپے سے بڑھ کر دسمبر2022 ء میں 33 ہزار 116 ارب روپے ہوگیا۔نومبر میں 50 ہزار 996 ارب روپےکے مجموعی ملکی قرضے دسمبر 2022 میں 51 ہزار ارب روپے ہوگئے۔

اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا ہر شہری سوا دو لاکھ روپے کا مقروض ہے پاکستان کی برآمدات اور درآمدات میں توازن نہ ہونے کے باعث ہر سال پاکستان کو اپنی ادائیگیوں کے لیے دوست ممالک کے پاس کشکول اٹھا کر جانا پڑتا ہے جس کے باعث پاکستان کے وزیر اعظم کے دوروں کو بھیک مانگنے سے تعبیر کیا جانے لگا ، اسی طرح پاکستان کو ہر سال توانائی کی درآمد پر29بلین ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں حکومت توانائی کی مد میں بچت کرنا چاہتی ہے جس کی راہ میں دکاندار اور کاروباری برادری آگئی۔ دکاندار حکومت کے مقرر کردہ وقت پر دکانیں اور اپنا کاروبار بند کرنے کے لئے تیار نہیں جس کی وجہ سے موسم سرما میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑی، توانائی کی مد میں اگرپاکستان 4،5ارب ڈالر کی بچت کر لے توپاکستان خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو کر اربوں ڈالر کی بچت کر سکتا ہے۔ (جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔