بلاگ
Time 28 فروری ، 2023

ناکام کوششیں اور یوٹرن

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عمران خان نے اقتدار سے محرومی کا دکھ دل پر لیا ہوا ہے اور اس ضمن میں وہ ہر حربہ استعمال کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کا اصل مقصد یعنی اپنے خلاف مقدمات کی روک تھام میں بھی وہ کسی طور کامیاب نظر نہیں آتے۔

 جیل بھرو تحریک بھی بری طرح ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ گرفتاری دینے والے قائدین اور ان کے اہل خانہ ضمانتیں کرانے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ جیل بھرو تحریک میں گرفتاریاں دینے اور پھر ضمانتیں کروانے کے لئے کوششیں بالکل دو متضاد عمل ہیں۔ یہ تواس تحریک کی نفی اور پچھتاوا ہے۔

 پی ٹی آئی کےایک سابق ایم این اے قیدیوں کی بس کے دروازے پر کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کروانے کے بعد دوڑ لگا کر فرار ہوگئے۔ اسی طرح ایک سینیٹر یہ فریاد کرتے دیکھے گئے کہ وہ گرفتاری دینا ہی نہیں چاہتے تھے وہ تو شاہ محمود قریشی سے ملاقات کیلئے آئے تھے کہ گرفتار کر لئے گئے۔

ابھی تک تین چار کے علاوہ اہم قائدین میں سے کسی نے گرفتاری نہیں دی ۔ سابق وزیراعلیٰ کے پی محمود خان منظر سے غائب رہے۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک بھی تقاریر اور پریس کانفرنس کرنے کے بعد نو دو گیارہ ہوگئے۔ 

سائے کی طرح عمران خان کیساتھ رہنے والے شیخ رشید احمد کمیٹی چوک راولپنڈی میں خطاب کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس بخیر و عافیت روانہ ہوگئے۔پی ٹی آئی کے نئے نویلے صدر چوہدری پرویز الٰہی اور انکے صاحبزادے مونس الٰہی بھی جیل بھرو تحریک سے بے نیاز رہے۔ حتیٰ کہ وہ گرفتاری دینے کیلئے کارکنوں کو بھی نہ بھیج سکے۔

 لاہور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے سابق وفاقی اور صوبائی وزراء اور قابل ذکر قائدین بھی غائب رہے۔ ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر نے تو مبینہ طور پر گرفتاریاں دینے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے سے بھی منع کردیا تھا۔ وسطی اور جنوبی پنجاب بشمول گوجرہ، گوجرانوالہ اور سرگودھا سے نہ تو کسی اہم رہنما نے گرفتاری دی نہ ہی کارکنوں نے اس میں دلچسپی ظاہر کی۔

اس تمام صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جیل بھرو تحریک کا ڈرامہ صاف طور پر ناکام نظر آ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہو گیا کہ اب عوام میں شعور پیدا ہوگیا ہے۔ وہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ ان کو اب تک بیوقوف بنایا جاتا رہا۔ملکی معاشی صورتحال جلسے جلوسوں اور عدم استحکام کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ چاہے وہ انتخابات ہوں، جیل بھرو تحریک ہو یا اس طرح کا کوئی بھی بے فائدہ عمل ہو۔ عوام اب ان پر اعتبار بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ عمران خان پہلے عوام سے کچھ کہتے ہیں پھر اس سے یوٹرن لے کر کارکنوں کو شرمندہ کردیتے ہیں۔ 

امریکی غلامی سے آزادی سے لے کر امریکہ ہی کی منت سماجت تک عمران خان اب تک ایک سو سے زائد یوٹرن تو لے ہی چکےہوں گے۔ ملک میں پھر سر اٹھانے والی دہشت گردی اور ان تمام مشکل حالات میں کوئی شخص اپنے مفادات کے حصول کیلئے مزید مشکلات پیدا کرنے کی کوششیں کرے ،کسی بھی طرح عوام کیلئے قابل قبول نہیں ۔ یہ وقت تو یگانگت اور اتفاق کا ہے کہ سب ملک کا سوچیں اپنے بچوں اوران کے مستقبل کا سوچیں۔

 اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہر پاکستانی مرد و خواتین، ملازمت پیشہ، دکاندار، صنعت کار، مزدور، دیہاڑی دار سب موجودہ مہنگائی اور نازک معاشی صورتحال سے پریشان ہیں۔ ایسے حالات میں دہشت گردی کا پھر سر اٹھانا اور بھی تکلیف دہ ہے۔ ملک کئی مسائل کے گرداب میں ہے اور اس میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کیا ملک کی خیر خواہی ہے؟ اس لئے لوگوں نے اس نام نہاد و ناکام تحریک کو کھل کر مسترد کر دیا ہے۔

آج اگر آئین دستک اور فریاد کرتا ہے تو 23کروڑ عوام کی حالت کسی کو نظر نہیں آتی۔ ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر اور اس میں ہونے والے دھماکے جن کے نتیجے میں کئی بے گناہ شہری اور سکیورٹی اداروں کے جوان اور پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں کیا یہ دہشت گردی اور دھماکے خوشی کے شادیانے ہیں۔ آئین و قانون کی اہمیت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ عدلیہ کا احترام ہر ایک پر لازم ہے۔ لیکن دو وقت کی روٹی کیلئے اس ملک کے بے بس غریبوں کے حقوق کو دیکھنا بھی لازم ہے۔

 ایسے لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ غریب کی حالت بہتر بنانے اور ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی کوششوں میں ساتھ نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں لیکن ان کوششوں کو سبوتاژ کرکے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ نہ ہی انتخابات کی بے وقت راگنی کی حمایت کرنی چاہئے۔ جن پر اربوں روپے ضائع ہوں گے اور وہ بوجھ بھی غریب ہی کی کمر پر لادا جائے گا جو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔

عسکری قیادت کو بھی چاہئے کہ غیر جانبدار بے شک رہیں لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے اور ملک کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے والوں کو شتربے بہار نہ چھوڑا جائے۔ یہ حقیقت تو اب سب پر عیاں ہوچکی کہ نام نہاد جمہوریت اور نظام کو تبدیل کرنا ہی ملکی مسائل کا واحد اور آخری حل ہے، جس میں تاخیر مزید نقصان کا باعث ہوگی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔