10 مارچ ، 2023
اگر آپ اپنا کھانا بہت تیزی سے کھانے کے عادی ہیں تو یہ عادت جسمانی وزن میں اضافے، موٹاپے اور دیگر طبی مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں غذا کو آرام سے کھانا زیادہ بہتر ہوتا ہے اور صحت کو اس عادت سے فائدہ ہوتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا آرام سے کھانے سے جسمانی وزن میں کمی لانا ممکن ہے؟
طبی سائنس کے مطابق جو افراد بہت تیزی سے غذا کو جسم کا حصہ بناتے ہیں، عموماً ان کا جسمانی وزن دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
درحقیقت بہت زیادہ تیزی سے کھانے والے افراد میں موٹاپے کا امکان دیگر کے مقابلے میں 115 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ غذا کو تیزی سے کھانے والے افراد کا جسمانی وزن آرام سے کھانے والوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے۔
کھانے کی خواہش کو جسمانی ہارمونز کنٹرول کرتے ہیں۔
کھانے کے بعد ہمارا معدہ بھوک کا احساس دلانے والے ایک ہارمون ghrelin کو دباتا ہےجبکہ پیٹ بھرنے کا احساس دلانے والے ہارمونز کو خارج کرتا ہے۔
یہ ہارمونز دماغ کو بتاتے ہیں کہ آپ کا پیٹ بھر چکا ہے جس کے بعد مزید کھانے کی خواہش نہیں ہوتی۔
اس عمل کو مکمل ہونے میں 20 منٹ لگتے ہیں تو آرام سے کھانے سے دماغ کو یہ سگنل ملنے کے لیے مناسب وقت مل جاتا ہے۔
بہت زیادہ تیزی سے کھانے سے لوگ اکثر ضرورت سے زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں کیونکہ پیٹ بھرنے کا سگنل دماغ کو تاخیر سے ملتا ہے۔
اس کے مقابلے میں آرام سے کھانا کھانے پر پیٹ بھرنے کا احساس دلانے والے ہارمونز کی تعداد بڑھتی ہے جس سے لوگ کم مقدار میں غذا کو جسم کا حصہ بناتے ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد آرام سے کھانا کھاتے ہیں انہیں تیزی سے کھانے والوں کے مقابلے میں زیادہ دیر سے بھوک لگتی ہے۔
اس کے نتیجے میں وہ افراد کم کیلوریز کو جسم کا حصہ بناتے ہیں جس سے بتدریج جسمانی وزن میں کمی آتی ہے۔
آرام سے کھانا کھانے کے لیے ضروری ہے کہ غذا کو نگلنے سے پہلے اسے اچھی طرح چبایا جائے۔
اس عمل سے کیلوریز کی کم مقدار جسم کا حصہ بنتی ہے اور جسمانی وزن میں کمی آتی ہے۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی وزن بڑھنے سے پریشان افراد اپنی غذا کو اچھی طرح چبانے کے عادی نہیں ہوتے۔
آرام سے کھانے کے دیگر فوائد
اس عادت کے نتیجے میں کھانے کا ذائقہ زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے، نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے، غذائی اجزا کو بہتر طریقے سے جذب کرنے میں مدد ملتی ہے جبکہ تناؤ کم ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔