الیکشن کا خوف، ملک داؤ پر؟

اللّٰہ خیر، قارئین کرام، ذرا غور فرمائیں وطن عزیز کے جاری آئینی بحران اور بدتر اقتصادی حالت میں اضافہ تیز ترین نہیں ہوگیا؟اور تب جب اس سے موثر اور جلد نکلنے کا ایک (لیکن آخری) موقع موجود ہے، پھر تب جب جنوبی ایشیا، سنٹرل ایشیا اور گلف ریجن قدرتاً پیرا ڈائم شفٹ کے پراسس میں آ چکا ہے۔

مہنگائی کے باعث غیر معمولی ہوتی عمران حکومت کو ختم ہوئے اور اس کے مخالف 13 اپوزیشن جماعتوں کی اتحادی حکومت کو جیسے تیسے اقتدار میں آئے سال بیتنے کو ہے اگر ہم سب ملکی امور پر سوچنے بولنے، لکھنے پڑھنے والے، اس کا تجزیہ کرکے رائے بنانے اور اس کا مختلف اشکال میں اظہار کرنے والے پاکستانی شہری ادارے اور تنظیمیں، اپنے تئیں اس پُرآشوب ایک سال کا تجزیہ مکمل ٹھنڈے دل، کھلے دماغ اور مکمل حقیقت پسندی (COLD INTELLECTUAL CALCULATIONS) کی بنیاد پر کریں تو اپنی اپنی سیاسی وا بستگیوں اور مختلف نظریاتی آرا کے باوجود سب کے سب سوالوں میں سے کچھ جواب یقیناً مشترکہ آئیں گے اور ان پر ہمارا کوئی اختلاف ہوگا نہ یہ کسی بھی اعتبار سے بحث طلب ہوں گے، جیسے: دنیاوی زندگی میں پاکستان ہی ہم سب کی بڑی ،واحد اور مشترکہ پہچان اور محفوظ بنیاد ہے۔

 اس سے باہر ہم یا ہماری آل اولاد جس بھی ملک میں جا کر جتنے بھی مال اسباب اور تحفظ و آسائش کے ساتھ آباد ہو جائے، ہم اور ہماری وہاں پیدا اور پلنے بڑھنے والی نسل، کبھی (اور طویل عرصے تک) اس ’’محفوظ جنت‘‘ کی اول اور برابر درجے کی شہری نہیں بن سکے گی۔ ہماری شناخت کاغذوں میں وہاں کا ہو کر بھی عملاً اور اصلاً ہوگی نہیں۔ گزشتہ ایک ہی عشرے میں دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکہ اور بھارت میں اقتدار کی سیاست کے حوالے سے جو کچھ ہوا اس نے آنکھیں نہیں کھولیں؟ کہ مغرب میں آپ اپنی شناخت سے جتنا بھی قانوناً اور سماجی حوالے سے دستبردار ہو کر وہاں مدغم ہو جائیں یا اس کی شعوری کوششیں کریں، کلیش آف سولائزیشن کسی نہ کسی درجے شکل اور اذہان میں موجود ہے۔ 

بھارت کے گزشتہ دو عام انتخابات سے تشکیل پائی ویل مینڈیٹڈ برسراقتدار پارلیمانی قوت و حکومت نے اپنے عزائم ایجنڈے سے ہی نہیں عملی اقدامات ڈنکے کی چوٹ پر برصغیر میں دو قومی نظریے کے سچ و حق ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ واضح رہے کہ یہ بڑا بھاری ہونے میں ہماراکوئی کردار نہیں، یہ عالمی سیاست کے بدلتے رنگ اور کئی کئی خطوں پر مشتمل گرینڈ ریجن کی گریٹ گیم (پالیٹکس) کا نتیجہ ہے۔

 ہاں برصغیر کی حد تک یہ تو ثابت آج کے ’’آئین نو‘‘ کی مکمل سنجیدہ دعوت فکر کا یہ نتیجہ بھی مشترکہ ہی نکلے گا کہ قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کا پہلا عشرہ جو سیاسی و حکومتی عدم استحکام میں مبتلا رہا، اس کی بڑی وجہ ملک بنانے والی عظیم قیادت اور فوری مطلوب متفقہ دستور کی عدم موجودگی اور اس کی تیاری میں تاخیر (وجہ جو بھی بنی) تھی اور یہ بھی کہ متفقہ دستور (1956) کی تیاری کے بعد اس کے علانیہ شیڈول کے مطابق پہلے ملکی عام انتخابات ہو جاتے تو مارشل لا لگتانہ گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے تباہ کن غیر آئینی اقدام کی عدالتی توثیق سے ملک جمہوریت کی پٹری سے اترتا، نہ ہی ایوب دور میں ترقی کے ساتھ ساتھ مخصوص پلتا بڑھتا خاموش مگر خطرناک آئینی تنازعہ، (خصوصاً مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کے حوالے سے) جو الیکشن 70 کے بعد آتشی ہوگیا، کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب بنتا۔ ہمارے پوٹینشل شہریوں، اداروں اور تنظیموں کی اپنے اپنے طور پر کی گئی الگ الگ برین اسٹارمنگ سے ہم اس پر بھی یقیناً متفق ہوں گے کہ موجود ملکی آئین 1973ء کے اطلاق کے ابتدا سے تادم ہم بحیثیت قوم ’’آئین کے مکمل اور سب شہریوں پر قانون کے یکساں نفاذ‘‘ میں مسلسل ناکام ہوتے ہوتے۔

آج پھر دوبارہ، موجود پُر خطر ہوئے آئینی بحران میں جکڑے گئے ہیں۔ ہم اس پر بھی ہر زاویے سے سوچتے پرکھتے متفق ہی ہوں گے کہ مسلسل عدم سیاسی استحکام اور حکومتوں اور اپوزیشن کے درمیان آئینی تنازعات و مسائل پیدا ہونے سے ہماری قومی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ 

اور ایک مرحلے کی ترقی کے بعد ریورس ہمارا معمول بن گیا ہے۔ یقیناً ہمارا اس پر بھی کامل اتفاق ہی ہوگا، خواہ مصلحتاً ہم اسے اپنے سیاسی ابلاغ میں تسلیم کریں یا نہ کریں، کہ پاکستان لٹا تو ہے، بہت بڑا بلکہ اصل سرمایہ ناجائز ذرائع اور جملہ وائٹ کالر کرائمز سے بیرون ملک منتقل ہوا ہے، اتناکہ آج قومی معیشت اس حالت میں ہے کہ ہماری آزادی و خودمختاری اور سلامتی تک خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔ 

یقیناً ہم یہ بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر خواہ کھل کر تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوں، لیکن دل سے تو تسلیم کریں گے کہ آج پاکستان جس عالم کسمپرسی میں جکڑا گیا ہے اس سے اسے نکالنے کے لئے فضل ربی سے خلق خدا ہی اس کا ذریعہ بنے گا۔ کوئی بڑی طاقت، کوئی برادرا ور دوست ملک اور کوئی ریاستی ادارہ (جو خود ہی ثابت اور اعتراف بھی کر رہے ہیں) ملک کو اس دلدل سے نہیں نکال سکتا۔ اللّٰہ کا کرم و فضل بھی تبھی ہی شامل حال نہ ہوگا؟ جبکہ ہم اس حقیقت کو ’’امور مملکت چلانے بنانے میں’’عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں‘‘ کو دل سے ہی نہیں بلکہ کھل کر اور عملاً بھی تسلیم کرلیں۔ حکومتی اتحاد میں پیپلز پارٹی اس حقیقت کو مصلحتاً احتیاط سے مان تو رہی ہے، لیکن نظام بد کی سیاست اسے کھل کر عملاً نہیں ماننے دے رہی۔(جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔