13 اپریل ، 2023
مقننہ اور عدلیہ آمنے سامنے، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 8رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون پر پیشگی حکمِ امتناع جاری کرتے ہوئے تاحکم ثانی کسی بھی انداز اور طریقے سے عمل درآمد روک دیا۔
سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ پر عمل درآمد سپریم کورٹ نے تا حکم ثانی روک دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کے بعد حکم نامہ جاری کیا گیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی آج کی سماعت کا حکم نامہ 8 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔
حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت 2 مئی کو ہو گی، حکم امتناعی کا اجرا نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کیلئے متفکر ہے، اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے عدالت کی مداخلت درکار ہے، سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلاء کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں۔
کیا مقننہ کے پاس سپریم کورٹ کے قوانین میں ردوبدل کا اختیار ہے؟
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جس کے پاس قانون ریگولیٹ کرنے کی طاقت ہو وہ اس کو تباہ کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے، موجودہ کیس میں عدلیہ کی آزادی کی تباہی کا خدشہ ہے، کیا مقننہ کے پاس سپریم کورٹ کے قوانین میں ردوبدل کا اختیار ہے؟ واضح ہونا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 191 میں اختیارات میں ردوبدل کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں، عدالت کی پریکٹس اور پروسیجر میں ردوبدل خواہ کتنی ہی ضروری ہو عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرتی ہے، مجوزہ بل یا ایکٹ کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔
بادی النظرمیں ایکٹ سپریم کورٹ کے اختیارات میں براہ راست مداخلت ہے
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عام حالات میں سپریم کورٹ صرف فیصلوں یا ایکشن پر حکم امتناعی جاری کرتی ہے، عام طورپرقانون پر حکم امتناعی نہیں دیا جاتا، موجودہ کیس کے حقائق اور اثرات معمولی نہیں ہیں، بادی النظرمیں ایکٹ سپریم کورٹ کے اختیارات میں براہ راست مداخلت ہے، عدلیہ کی آزادی میں براہ راست مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی، احتیاط کے طور پر عدالت کو حکم جاری کرنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کا اپنے حکم نامے میں کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم سے اپیل کا حق بھی دے رہی ہے، دیکھنا ہو گا کیا پارلیمنٹ عدالت کی ایپلیٹ دائرہ اختیاری میں ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں، فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کی انٹری 55 سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتی ہے، پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ میں اپیل کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کا اختیار حاصل نہیں ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار کو تبھی بڑھا سکتی ہے جب آئین اجازت دے، آئین پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار کو بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل نے اہم قانونی نکات اٹھائے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق بھی نکتہ اٹھایا گیا، سپریم کورٹ بل کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی، تحریک انصاف، ق لیگ اور حکومتی اتحادی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں ، اس کے علاوہ اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے ہیں اور کیس کی مزید سماعت 2 مئی کو ہوگی۔
سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کا احوال
سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف درخواستوں میں فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس سےمتعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف 4 درخواستیں عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی ہیں، بل کے خلاف درخواستیں ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم اور دیگر نے دائر کی ہیں۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئےکہا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے، قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا، قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا، وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں، عدالت کو انتخابات نہ کروانے پر ازخود نوٹس لینا پڑا، عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانےکا حکم دیا۔
وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ تین اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کرانےکا حکم دیا، آئین پر عمل کرنےکے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیےگئے، عدالت اور ججز پر ذاتی تنقیدکی گئی، حکومتی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمہ دار ہیں، مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا، صدر مملکت نے اعتراضات عائد کرکے بل اسمبلی کو واپس بھیجا، سیاسی اختلافات کی بنیاد پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا، مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد دس دن میں بل قانون بن جائےگا، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔
وکیل امتیازصدیقی نےکہا کہ بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچ بنانےکا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرےگی، بنیادی سوال یہ ہےکہ یہ بل قانون بننےکے لائق ہے؟ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیرقانونی ہے، بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں، بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا غیرآئینی ہے، بل زیر التوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے، صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ 10 دن بعد خود ہی قانون کا حصہ بن جائےگا، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں، چیف جسٹس کی تعیناتی سے ہی سپریم کورٹ کی پیدائش اور تکمیل ہوتی ہے، چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی، چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے سےعدلیہ کی آزادی اور دیگر ججز متاثر ہوں گے۔
امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے، چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج ایک لمحے کے لیے بھی استعمال نہیں کرسکتا، چیف جسٹس کا دفتر 2 سینئر ججز کے ساتھ کیسے شیئرکیا جاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ قاسم سوری کیس میں قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے، ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہےکہ بل پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا، بل پاس ہوجائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے، عدالتی نظائر موجود ہیں کہ صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیاجاسکتا ہے، عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کے لیے بااختیار ہے، پارلیمنٹ سمیت ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے رولزموجود ہیں جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ آپ کے مطابق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے، آپ کے مطابق پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔
وکیل امتیازصدیقی کا کہنا تھا کہ صدر ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے، صدر کا عہدہ صرف رسمی نوعیت کا نہیں ہے، صدر وہ طاقت ہے جو تمام اکائیوں کو جوڑے رکھتا ہے، صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی، اسمبلی منظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہوسکتی، بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے، عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التوا قانون سازی میں مداخلت نہیں ہوگا، پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرکے بل صدر کو بھجواچکی اس لیے عدالت کی مداخلت تصور نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ اہم مقدمہ ہے جس میں عدلیہ کی آزادی کا نکتہ اٹھایا گیا، پارلیمنٹ کا بے حد احترام کرتے ہیں، عدالت مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لینا چاہتی ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ بل میں اپیل کا حق دیا جارہا ہے، کوئی مقدمہ 10 رکنی بینچ سنے تو اپیل کیسے دائرہوسکتی ہے؟ کیا سینئر ججز کے فیصلے کےخلاف جونیئر جج اپیل سن سکتے ہیں؟
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدالت کے تمام ججز برابر ہوتے ہیں۔
وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ جسٹس فائز عیسٰی کیس میں ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں تھا، سینئر ترین ججز ریفرنس پر سماعت کر رہے تھے، سپریم کورٹ نے ریفرنس سے پہلے کارروائی غیر آئینی قرار دی، موجودہ کیس میں بل کی منظوری سے پہلے سے مراحل کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ موجودہ کیس میں عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟
وکیل امتیاز صدیقی نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل غیرآئینی قرار دیا جائے، عدالت فیصلے تک مجوزہ ایکٹ کو قانون بننے سے روکے، عدالت نےحسبہ بل اور ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں پارلیمنٹ کی کارروائی کا جائزہ لیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ حسبہ بل ریفرنس کی صورت میں آیا تھا، حسبہ بل میں گورنرکوبل پر دستخط سے روکا گیا تھا۔ امتیاز صدیقی نے استدعا کی کہ وزارت قانون کو فیصلے تک مجوزہ ایکٹ بطور قانون نوٹیفائی کرنے سے روکا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے جائزہ لیناہےکہ اس معاملے میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف درخواستوں میں فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
عدالت نے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور اٹارنی جنرل کو بھی قانونی معاونت کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
عدالت نے صدرمملکت کو بذریعہ پرنسپل سیکرٹری، وزیراعظم کو بذریعہ پرنسپل سیکرٹری اور وزارت قانون اور فیڈریشن کو بھی نوٹس جاری کردیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کر کے توثیق کے لیے صدر پاکستان کو بھیجا تھا تاہم صدر عارف علوی نے بل نظر ثانی کے لیے واپس اسپیکر کو بھیج دیا تھا۔
دو روز قبل حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروا لیا تھا۔ اب بل کو دوبارہ صدر کے پاس بھیجا جائے گا، اگر صدر نے 10 روز کے اندر بل کی منظوری نہ دی تو بل خود بخود قانون کا حصہ بن جائے گا تاہم اب سپریم کورٹ نے اس ایکٹ پر عمل درآمد تاحکم ثانی روک دیا ہے۔
بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائے گا جب کہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔
آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر3 یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا جب کہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے، دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقررہوگی، زیرالتوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینےکے 14 روزکے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔