ہر رات کتنے گھنٹے کی نیند اچھی صحت کے لیے ضروری ہے؟

نیند کا دورانیہ صحت کے لیے بہت اہم ہوتا ہے / فائل فوٹو
نیند کا دورانیہ صحت کے لیے بہت اہم ہوتا ہے / فائل فوٹو

نیند ہماری زندگی کا وہ حصہ ہے جو ہماری شخصیت کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔

نیند کی کمی صرف تھکاوٹ کا باعث نہیں بنتی بلکہ اس سے صحت اور ذہن پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مگر بیشتر افراد کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں روزانہ کتنے گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

اور اگر ہم نیند کی کمی کے شکار ہیں تو اس کا علم کیسے ہوگا؟

ہر فرد کو کتنے گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے؟

کیا 6 گھنٹے کی نیند ایک بالغ فرد کے لیے کافی ہوتی ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب ہے نہیں۔

امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ Prevention نے ہر رات کم از کم 7 گھنٹے نیند کی سفارش کی ہے۔

مگر ہر رات 8 گھنٹے نیند کو مثالی تصور کیا جاتا ہے۔

طبی ماہرین نے ہر عمر کے افراد کے دورانیے کے بارے میں بتایا ہے۔

نومولود بچوں کے لیے 14 سے 17 گھنٹے، 4 سے 12 ماہ کے بچوں کے لیے 12 سے 16 گھنٹے، ایک سے 2 سال کے بچوں کے لیے 11 سے 14 گھنٹے، 3 سے 5 سال کے بچوں کے لیے 10 سے 13 گھنٹے جبکہ 6 سے 12 سال کی عمر کے بچوں کے لیے 9 سے 12 گھنٹے نیند کا مشورہ دیا گیا ہے۔

13 سے 18 سال کے نوجوانوں کے لیے 8 سے 10 گھنٹے، 18 سے 64 سال کے افراد کے لیے 7 سے 9 گھنٹے جبکہ 65 یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے 7 سے 8 گھنٹے نیند بہترین تصور کی جاتی ہے۔

تو کیا آپ کی نیند کا دورانیہ مناسب ہے؟

بیشتر افراد کو علم نہیں ہوتا کہ وہ ہر رات کس وقت نیند کی گہری وادی میں گم ہو گئے تھے، تو یہ تعین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ نیند کا دورانیہ 7 یا گھنٹے تھا یا نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ چند عام چیزوں پر نظر رکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نیند کی کمی کے شکار تو نہیں۔

ایک عام علامت بیداری کے دوران غنودگی طاری ہونا ہے، اگر دن بھر غنودگی کا احساس طاری رہتا ہے تو یہ نیند کی کمی کا اشارہ ہے۔

ایک اور عام علامت چیزیں بھولنا ہے یعنی ایسی باتیں بھول جانا جو آسانی سے یاد رہتی ہیں۔

نیند کی کمی کے شکار افراد کے لیے مختلف کاموں پر توجہ مرکوز کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔

چڑچڑاہٹ اور انزائٹی بھی نیند کی کمی کی علامات ہیں، نیند کی کمی سے ذہن اور مزاج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نیند کی کمی کے شکار افراد کے جسمانی وزن میں اضافہ بھی ہوتا ہے، خاص طور پر نیند کی دائمی کمی کے شکار افراد میں انسولین کی مزاحمت بھی بڑھتی ہے جس سے بھی موٹاپے، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔