مجھے آلودہ ہونے سے کیوں نہیں بچاتے؟

5 جون کو دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا اور 8 جون کو ہر سال دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے
5 جون کو دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا اور 8 جون کو ہر سال دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے

5 جون کو دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا اور 8 جون کو ہر سال دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

یہ دونوں عالمی دن تاریخ کے اعتبار سے جتنے قریب ہیں اتنا ہی قریبی تعلق ان کا حقیقت میں بھی ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتر اور مستحکم حالت کے لیے سمندروں اور آبی حیات کا آلودگی سے پاک ہونا نہایت ضروری ہے، اگر یوں کہا جائے کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں تو غلط نہ ہو گا۔

اس سال سمندروں میں پلاسٹک کی موجودگی اور اس سے پیدا ہونے والے ماحو لیاتی مسائل پر ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور دنیا کو خبر دار بھی کیا کہ سمندری آلودگی اس کرہ ارض کے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ سمندر صرف اس آلودگی کا سامنا نہیں کر رہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے مسائل ہیں جو انسانیت کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں۔ ا ن میں ایک مسئلہ جاپان کا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت وہ بحر اوقیانوس میں جوہری آلودہ پانی کے اخراج کا فیصلہ کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ ایک تحقیق بھی بہت معنی رکھتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں سمندروں کی گرمی نئے ریکارڈ تک پہنچ رہی ہے کیونکہ سال 2022 ریکارڈ شدہ انسانی تاریخ کا گرم ترین سال تھا۔ چین، امریکا اور اٹلی کے 16 اداروں سے تعلق رکھنے والے 24 سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی جانب سے کی جانے والی یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے ایڈوانسز ان ایٹموسفیئر سائنسز میں شائع ہوئی ہے۔

چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے تحت انسٹی ٹیوٹ آف ایٹموسفیئر فزکس کے ایک محقق نے کہا کہ 2021 کے مقابلے میں زمین کے سمندروں کے اوپری 2000 میٹر حصے میں بڑی مقدار میں گرمی جذب ہوئی ہے

سمندری درجہ حرارت آب و ہوا کی تبدیلی کی پیمائش کیلئے ایک اہم اشارہ ہے کیونکہ 90 فیصد سے زیادہ عالمی گرمی سمندروں میں ختم ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سمندروں کے اندر گرمی میں اضافہ گلوبل وارمنگ کا ایک اور ثبوت ہے۔2017 کے بعد سے تقریباً ہر سال سمندر کے درجہ حرارت کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں اور گلوبل وارمنگ پر سمندر کے تاخیر سے ردعمل کی وجہ سے ، سمندر کے درجہ حرارت کا رجحان دہائیوں تک برقرار رہے گا۔ درجہ حرارت کے علاوہ اس تحقیق میں سمندر کے پانی کے نمکین ہونے کا بھی حساب لگایا گیا جس میں معلوم ہوا کہ زیادہ نمکین علاقوں میں نمکیات میں اضافہ ہوا جبکہ کم نمکین علاقوں حقیقت اس کے برعکس تھی۔

گرم سمندر ، سطح سمندر میں اضافے، شدید موسم اور طوفانوں کا باعث بنتے ہیں۔ وہ کاربن کو جذب کرنے میں بھی کم مؤثر ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انسانوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں زیادہ رہتی ہے اور اس سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔

دوسری طرف اس وقت دنیا جاپان کی جانب سے بحر اوقیانوس میں جوہری پانی کے اخراج کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ اپریل 2021 سے جاپانی حکومت اور ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی فوکوشیما جوہری آلودہ پانی کے سمندر میں اخراج کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس منصوبے پر عمل درآمد عنقریب شروع ہونے والا ہے جس سے سمندری ماحول اور اس سے ملحق غذائی تحفظ پر لوگوں کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔

فوکوشیما جوہری پاور اسٹیشن کی لیکچ کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔ ماہی گیری اور زراعت پر نقصانات سمیت پوری سمندری حدود میں آلودگی کے شدید خدشات کے پیش نظر مقامی افراد کی اکثریت جوہری آلودہ پانی کے سمندر میں اخراج کی مخالفت کررہے ہیں۔

2021 میں جاپانی حکومت کی جانب سے سمندر میں آلودہ پانی کے اخراج کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد، مقامی باشندوں نے اس فیصلے کی مخالفت میں اب تک 30 سے زائد مظاہرے کیے ہیں۔ جاپان کا جوہری آلودہ پانی کے اخراج کا عمل 30 سالوں سے زیادہ عرصے تک جاری رہے گا۔ ماہرین نے نشاندہی کی کہ فوکوشیما جوہری آلودہ پانی میں درجنوں ریڈیو نیوکلائڈز شامل ہیں اور ان میں بہت سے ریڈیونیوکلائڈز سے نمٹنے کی ابھی مؤثر ٹیکنالوجی بھی نہیں ہے اور وہ سمندری ماحول اور انسانی صحت کیلئے غیر متوقع نقصانات کا سبب بن سکتے ہیں۔

جاپان کی جانب سے اس اقدام کی حمایت میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ وہ جوہری آلودہ پانی کو فلٹریشن کے عمل سے گزارنے کے بعد اسے سمندر میں ڈالیں گے جس پر امریکا سمیت کچھ ممالک نے اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے لیکن سمندری اور آبی ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ فلٹریشن کے عمل کے باوجود بھی ٹیکنا لوجی پانی میں مضر صحت اثرات کو زائل کرنے میں مکمل کامیاب نہیں ہو گی اور ایسی صورت میں سمندری حیات اور لا محالہ انسانی زندگی پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ اس پیچیدہ صورت حال میں بھی کیا دنیا دھڑوں میں تقسیم رہ کر مفادات کا تحفظ کرے گی یا پھر سمندروں ،اس میں بسنے والی آبی حیات اور انسانوں کو بچانے میں جلد از جلد کوئی لائحہ عمل اختیار کرے گی۔ گزشتہ سال ستمبر میں چینی صدر شی جن پنگ نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی) کی تجویز پیش کی تھی جو وقت کے رجحان کے مطابق تھی اور تمام فریقین کی ضروریات کو پورا بھی کرتی ہے۔ مختلف شعبوں میں میری ٹائم کنیکٹیوٹی اور تعاون اقتصادی اور سماجی ترقی کیلئے اہم محرک اور ایک مرکزی نقطہ ہے۔

سمندر زندگیوں کی پرورش کرتے ہیں، وسائل پر مشتمل ہیں اور دنیا کو جوڑتے ہیں، پائیدار ترقی کو فروغ دینے کیلئے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں، اس وقت، عالمی سمندری حکمرانی کو ماحولیاتی آلودگی، آب و ہوا کی تبدیلی اور سمندر کی سطح میں اضافے جیسے مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔  یہ سب مسائل کسی ایک ملک کی جانب سے یک طرفہ کوشش سے نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے مشترکہ کارروائی کی صورت میں ہی حل کیے جا سکتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔