وفاقی بجٹ، عوام کا امتحان کب ختم ہوگا؟

پاکستانی قوم کا امتحان ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک طرف سیاسی عدم استحکام نے ملکی کاروبار کو منجمد کر رکھا ہے، تو دوسری طرف ڈالر کی اونچی اڑان نے،ملکی معیشت کو گہرے زخم لگا دیےہیں،درآمدات اور برآمدات کے فرق نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے، عام آدمی کیلئے زندگی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ 

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح میں 0.21فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 39.26فیصد ریکارڈ کی گئی۔ 21اشیائے ضروریہ مہنگی اور 10سستی ہوئیں۔ وزارت خوراک پنجاب کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال میں گندم فی من 2570روپے، آٹا فی کلو 50روپے، روٹی 5روپے اور نان کی قیمت میں13روپے اضافہ ہوا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باعث 2022ء میں دوبار گندم کی امدادی قیمت بڑھا کر 2300روپے کی گئی جو اپریل 2023ء میں 3970 روپے ہوگئی۔ 

یوں ایک سال میں فی من گندم کی قیمتوں میں 2570روپے کا تاریخی ہوشربا اضافہ ہوا۔ اوپن مارکیٹ میں گندم فی من 5400روپے اور 20کلو آٹے کا تھیلا 2850روپے میں فروخت ہوا۔ مہنگائی کے اس تناسب سے عوام پر 100فیصد اضافی بوجھ پڑا۔ وزارت خوراک کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق جون 2022ء میں سادہ روٹی 10روپے تھی جو رواں سال 5روپے اضافہ کے بعد 15روپے کی ہوگئی۔ 2022ء میں سادہ نان 12 روپے کا تھا جو 25روپے کا ہوگیا اور اس وقت اوپن مارکیٹ میں روٹی 20روپے اور نان 30 روپے کا فروخت ہو رہا ہے۔

 گزشتہ سال دس کلو آٹے کا تھیلا 607روپے اور 20کلو آٹے کا تھیلا 1208 روپے کا تھا جو 2023ء میں بالترتیب 1214روپے اور 2417 روپے کا فروخت ہو رہا ہے۔یہاں پر ہم نے بنیادی انسانی ضرورت کا جائزہ پیش کیا ہے۔جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 100فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔اس وقت ایک سو سے زیادہ ادویات ایسی ہیں جن کا خام مال ڈالر کی قیمتوں میں عدم استحکام کے باعث بیرون ملک نہیں منگوایا جا سکا۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہی ادویات مارکیٹ سے ناپید ہوچکی ہیں۔

 امن و امان کی خراب صورتحال،بد تر معاشی حالات کے دنوں میں ہی پی ڈی ایم سرکار کی جانب سے بجٹ میں کسی ریلیف کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق نئے بجٹ کا کل حجم 14 ہزار 460 ارب روپے رکھا گیا ہے، انتخابات کی تیاری کے طور پر ترقیاتی کاموں کیلئے 1150ارب روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے، آمدن کا ہدف 9200ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر7303ارب روپے خرچ ہونگے۔ 

دفاعی اخراجات میں218ارب روپے کا اضافہ کرکے 1804ارب روپے مختص کئےگئے ہیں۔ شعبہ تعلیم کیلئے صرف82 ارب اور صحت کیلئے اس سے بھی کم یعنی صرف 26ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ،پرائم منسٹر یوتھ لون کےلئے 10ارب روپے رکھے گئے ہیں،ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے کرنٹ اخراجات میں 65ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70ارب روپے مختص کئےگئے ہیں،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ چالیس ارب کے اضافے کیساتھ 400ارب کردیا گیا ہے،50ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے 30ارب روپے رکھے گئے ہیں، معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے استعمال شدہ کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کیلئے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز بھی بجٹ میں شامل ہے،معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کردی گئی ہیں،صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے اہم اقدامات اور ترسیلات زر میں اضافے کی خاطر بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے پرکشش مراعات بھی بجٹ کا حصہ ہیں جبکہ عام انتخابات کیلئے 48ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ گنجائش نہ ہونے کے باوجود انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر خزانہ نے اتحادی حکومت کی جانب سے ایک انتخابی بجٹ پیش کیا ہے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ 30سے 35فیصد، پنشن میں 17.5فیصد اور دیگر الائونسز میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ نجی شعبے کے ملازمین کی کم از کم اجرت 32000روپے کردی گئی ہے۔ بجٹ میں آئی ٹی سیکٹر، نوجوانوں اور اوورسیز پاکستانیوں کو مراعات دی گئی ہیں اور آئی ٹی ایکسپورٹ کا ہدف 2.5 ارب ڈالر سے بڑھاکر 4.5رب ڈالر رکھا گیا ہے۔ 

سولر پینل پر ڈیوٹی میں کمی شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے میں مدد دیگی۔بجٹ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ بجٹ کے حجم میں 34ارب ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی اور اس مرتبہ بجٹ 341ارب ڈالر رہ گیا۔ سود کی ادائیگیوں کا دبائو بڑھ کر GDP کے 67فیصد تک پہنچ گیا ہے اور وفاق کو صوبوں کو فنڈز کی ادائیگی کے بعد سود کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینا پڑیں گے۔ اس سال GDP گروتھ گزشتہ سال کے 6.1فیصد سے کم ہوکر صرف 0.29فیصد رہ گئی ہے۔ معیشت کے تینوں شعبوں زراعت، صنعت اور سروس سیکٹر کی کارکردگی گزشتہ سال کے مقابلے میں مایوس کن رہی اور کوئی شعبہ اپنے طے کردہ اہداف حاصل نہ کرسکا۔ فی کس آمدنی میں بھی 11فیصد کمی ہوئی ۔

بظاہر یہ اعداد و شمار کا ایک گورکھ دھندہ ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے گزشتہ ایک سال سے کسی اچھی خبر سننے کو کان ترس گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے یہ مژدہ تو سنایا کہ ہم ڈیفالٹ نہیں کر رہے لیکن اہل نظر کہہ رہے ہیں اس کی ساری علامات پوری ہوچکی ہیں۔محض سرکاری اعلان باقی ہے۔مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دور دور تک روشنی کی واحد کرن منصفانہ انتخابات ہیں۔ عوامی حمایت یافتہ لیڈر ہی اس ملک کو گرداب سے نکال سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔