27 جون ، 2023
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور ماہر قانون کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے 2015 کے فیصلے کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' میں گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور ماہر قانون کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ 2015 کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عوامی مفاد عامہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر اردو میں ڈالے جائیں گے مگرکوئی فیصلہ اردو میں نہیں ڈالا گیا۔
خیال رہےکہ 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا تھا۔
اردو میں تحریر کیےگئے فیصلے میں چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھا کہ ہمارا آئین پاکستانی عوام کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ خود پر لاگو ہونے والے تمام قانونی ضوابط اور اپنے آئینی حقوق کی بابت صادر کیے گئے فیصلوں کو براہ راست سمجھنا چاہتے ہیں، وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکمران جب ان سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان میں نہیں بلکہ قومی یا صوبائی زبان میں گفتگو کریں، یہ نہ صرف عزت نفس کا مطالبہ ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضہ ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد جیو نیوز کے دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ بیشتر جج صاحبان فیصلے انگریزی میں لکھتے ہیں لیکن انہیں انگریزی نہیں آتی۔
جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالتوں میں قومی زبان لکھی اور بولی جائے تو ملزمان کو پتہ چل سکےگا کہ عدالت میں ان سے متعلق کیا باتیں ہو رہی ہے، جج آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں، آئین میں تو ذکر ہی قومی و صوبائی زبانوں کا ہے، اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے، جب آئین اجازت نہیں دیتا تو جج صاحبان انگریزی میں فیصلہ کیوں لکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر عدالتوں میں اردو کی جگہ انگریزی زبان استعمال ہوتی ہے، ملزمان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وکلاء اور جج صاحبان اُن سے متعلق کیا گفتگو کرتے ہیں۔
جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس 8 ستمبر 2015ء کو آئین کے تحت قومی زبان اردو کو ہر جگہ بطور سرکاری زبان اپنانے کا حکم دیا تھا، اس حکم پر عمل درآمد ہو جائے تو زبان کے حوالے سے درپیش مسائل حل ہو سکتے ہیں۔