بلاگ
Time 29 جون ، 2023

بتاؤ، میرا نام کیا ہے؟

محمد علی نے باکسنگ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا، اُن سے پہلے باکسنگ بھدی ناک والے وحشیوں کا کھیل سمجھا جاتا تھا، محمد علی نے باکسنگ کو اسٹائی لائیز کیا، اس کھیل میں ’تماشا‘ شامل کیا، یعنی حُسن و شرارت، تفریح، سیاست، اور اس کے علاوہ بہت سے نئے اجزا کو باکسنگ کا حصہ بنا دیا۔

یہاں محمد علی کے ایک میچ کا ذکر مقصود ہے جو غالباً اُن کی زندگی کی سب سے وحشیانہ بائوٹ تھی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب باکسنگ کی عالمی تنظیموں کے اختلافات کے باعث دو ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن تھے، محمد علی اور ارنی ٹیرل۔ اختلافات سمٹے تو محمد علی اور ٹیرل کا میچ رکھا گیا تاکہ ایک متفقہ ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن چُنا جا سکے۔ فروری 1967 میں ہونے والی اس لڑائی سے پہلے دستور کے مطابق پری میچ نیوز کانفرنس منعقد ہوئی۔

ہوا کچھ یوں کہ کانفرنس میں ارنی ٹیرل نے محمد علی کو اس کے پرانے نام کیشس کلے سے مخاطب کیا، محمد علی نومسلم تھے اور اپنی نئی شناخت کی نسبت سے بہت حسّاس بھی، انہیں بُرا لگا، انہوں نے ٹیرل کو سختی سے منع کیا مگر ٹیرل انہیں مسلسل ان کے پرانے مسیحی نام سے مخاطب کر کے چڑاتا رہا، محمد علی واقعی چِڑ گئے، طیش کے عالم میں انہوں نے ٹیرل کو متنبہ کیاکہ ’مجھ سے ابھی معافی مانگو، اور مجھے میرے مسلم نام محمد علی سے پکارو، ورنہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ باکسنگ رِنگ میں تم مجھے محمد علی کہہ کر مخاطب کرنے پر مجبور کر دیے جائو گے۔‘ ٹیرل نہ مانا اور کانفرنس ختم ہو گئی۔6 فروری کو ہیوسٹن میں ہونے والا وہ میچ محمد علی کی بربریت کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دوسرے رائونڈ میں ٹیرل کی آنکھ سوج گئی اور پھر اس سے خون بہنا شروع ہو گیا، ٹیرل نے باقی میچ نیم بینائی کی حالت میں کھیلا، محمد علی میچ میں بار بار ٹیرل سے پوچھتے تھے ’بتائو میرا نام کیا ہے؟‘ اور پھر ٹیرل پر غضب ناک مکوں کی برسات کر دیتے۔ آٹھویں رائونڈ سے ٹیرل لڑکھڑانا شروع ہوا اور میچ کے آخرتک یونہی لڑکھڑاتا چلا گیا۔

 محمد علی وہ میچ متفقہ فیصلے سے جیت گئے۔ میچ کے بعد میڈیا نے محمد علی پر یہ کہہ کر تنقید کی کہ وہ چاہتا تو ٹیرل کو ناک آئوٹ کر سکتا تھا مگر اُس نے صرف ٹیرل کی پٹائی اور توہین کی غرض سے فائٹ کو پندرہ رائونڈ تک لمبا کیا۔بعد ازاں ٹیرل نے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ محمد علی کو کیشس کلے کہہ کر طیش دلانا ان کے باکسنگ کیرئیر کی ایک بڑی غلطی تھی۔

عمران خان نے بھی ارنی ٹیرل والی غلطی دہرائی ہے، انہوں نے توہین کی غرض سے اپنے سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین کے نام بگاڑے، اپنے سب مخالفین کو طیش دلایا، سیاست کو سیدھی سادی سیاست نہیں رہنے دیا بلکہ اُس میں غصہ اور نفرت شامل کر دی۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج فرزندِ شوکت خانم کا ہر مخالف سیاسی رِنگ میں انہیں ایک چپت رسید کرتا ہے اور ساتھ ہی پوچھتا ہے ’بتائو میر ا نام کیا ہے؟‘ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق ِجمہوریت پر دستخط اس لیے کیے تھے کہ سیاست سے نفرت اور غصہ نکال دیا جائے، نتیجہ یہ تھا کہ بعد میں بننے والی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتوں کے دوران دس سال تک ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔

مگر عمران خان نے میثاقِ جمہوریت کا نام بگاڑا اور اسے ’مُک مُکا‘ کا عنوان دیا۔عمران سیاست کو نوّے کی دہائی میں واپس لے گئے، جب کبھی آصف زرداری پکڑے جاتے تھے کبھی میاں شریف گرفتار کر لیے جاتے تھے۔ آج میاں نواز شریف اور آصف زرداری اس بات پر متفق ہیں کہ میثاق جمہوریت کے اصول اُس شخص پر لاگو نہیں ہوتے جو اسے مُک مُکا کہہ کر اُس دستاویز کے دستخط کنندگان کی توہین کیا کرتا تھا۔ارنی ٹیرل کبھی سوچتا تو ہو گا کہ اُسے کیا ضرورت تھی محمد علی کو کیشس کلے کہہ کر طیش دلانے کی، کھیل کھیل ہی رہتا توکتنا اچھا ہوتا۔

برادرِ علیمہ خان اپنے سیاسی مخالفین کو صرف اور صرف چور ڈاکو کہہ کر ہی یاد کیا کرتے تھے، کوئی پنجاب کا ڈاکو کوئی سندھ کا ڈاکو، اور پھر مفتی محمودؒ کے فرزند کی توہین تو عمران نے خود پر واجب کر رکھی تھی، وہ ہر جلسے میں بڑے اہتمام سے مولانا فضل الرحمان کی اہانت کرتے اور اپنے مداحین سے داد پاتے، اپنی پارٹی کے میڈیا سیل کو ہدایت کرتے کہ مریم نواز کوکبھی مریم نواز نہ کہو، ڈاکو رانی کہو، مریم نانی کہو، کیچڑ اچھالو، توہین کرو۔

یہ تو سیاست دانوں کی توہین اور انہیں غضب ناک کرنے کا قصہ ہے، لیکن یہ قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ’جھاکا‘ کھلنے کے بعد پسرِ اکرام اللہ نیازی کی گستاخ اکھیاں اس ’خاکی‘ سرکار سے جا لڑیں ۔ ابو سلیمان نے فوج کے سربراہ کو آغاز میں ہی ’جانور ‘ کے درجے پر فائز کیا، اور پھر چل سو چل، کبھی میر جعفر کبھی غدار، کبھی ملک دشمن ،کبھی ہینڈلر، یعنی یوں سمجھیے کہ ارنی ٹیرل محمد علی کو صرف کیشس کلے نہ کہتا بلکہ ایک گالی کے بعد ’ نِگر‘ کا لاحقہ بھی استعمال کرتا۔اداروں اور لوگوں کی توہین کر کے انہیں طیش دلاتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی صاحب کے سالے نے سوچا ہی نہیں کہ نفرت کا کھیل ایک دفعہ شروع ہو جائے تو اس کا اگلا رائونڈ مزید نفرت سے عبارت ہوا کرتا ہے ، اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں۔اب منظر کچھ یوں ہے کہ ابوطیش کا سیاسی چہرہ لہو میں تر ہے، وہ لڑکھڑا رہا ہے، اُس پر مُکّوں کی برسات ہو رہی ہے اور الحاج میاں محمد نواز شریف مدظلہ، مخدوم آصف علی زرداری وڈا سائیں ، مولانا فضل الرحمان زیدہ مجدہ اور عزت مآب جناب سید بادشاہ عاصم منیر احمد شاہ صاحب باری باری اُس سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں.....بتائو، میرا نام کیا ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔